جیسے کہ سب جانتے ہیں ‘شریعتِ اسلامی بھی دو اَجزاء پر مشتمل ہے‘ یعنی ایک حقوق اللہ یا عبادات اور دوسرے حقوق العباد یا معاملات. 

عبادات

عبادات کے ضمن میں جہاں تک نماز کے ذکر کا تعلق ہے تو وہ توتانے بانے کے مانند پوری سورت ہی میں بُنا ہوا ہے. چنانچہ اس جزوِ ثانی کا آغاز ہی اس ہدایت سے ہواکہ: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ (البقرۃ:۱۵۳)
’’اے اہل ایمان! مدد حاصل کرو صبر اور نماز سے.‘‘

اور پھر آیات ۲۳۸۲۳۹ میں تاکید کی گئی کہ نماز کی پوری حفاظت کرو. حتیٰ کہ اگر خوف کی حالت ہو تو بھی‘ خواہ پیدل چلتے ہوئے ‘خواہ سواری کی حالت میں ‘بہرحال کسی صورت میں بھی اس سے غفلت نہ برتو! رہا صلوٰۃ اور زکوٰۃ دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر تو وہ پورے قرآن کے مانند اس صورت میں بھی پانچ بار آیا ہے ‘جن میں سے ایک بار نصف اوّل میں یہود سے خطاب کے ضمن میں آیا تھا ‘اور چار بار نصف ثانی میں مسلمانوں سے خطاب کے ضمن میں آیاہے ‘یعنی آیات ۸۳۱۱۰۱۷۷اور ۲۷۷ میں. 

روزے کی حکمت اور احکام کے ضمن میں تو قرآن مجید میں پوری کی پوری بحث سورۃ البقرۃ کے ایک ہی مقام پر یعنی تیئیسویں رکوع میں آیات ۱۸۳ سے ۱۸۷ تک آ گئی ہے. یعنی حکمت صوم کے ضمن میں اس کی وضاحت بھی کہ روزے سے اصل مقصود حصولِ تقویٰ ہے. اس کی صراحت بھی کہ اس عبادت کے لیے رمضان کا مہینہ اس لیے مقرر کیا گیا کہ اس میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا تھا. اس کی نشاندہی بھی کہ روزے کا اصل حاصل حلاوتِ دُعااور لذتِ مناجات ہے ‘اور احکامِ صوم کی پوری تفصیل بھی اُن کے ارتقائی مراحل کے تذکرے سمیت! یعنی وہ ابتدائی حکم بھی جس کی رُو سے روزے کا وُجوب علی التّخییر قرار پاتا ہے اور وہ آخری حکم بھی جس کی رُو سے روزے کی فرضیت علی التّعیین ہو گئی!

اسی طرح حج اور اس کے مناسک و اَحکام کے ضمن میں بھی اس سورۂ مبارکہ کی آیات ۱۹۶ تا ۲۰۳ کو حد درجہ اہمیت حاصل ہے‘ جن میں مناسک حج کے ضمن میں تمام ضروری ہدایات آ گئی ہیں. یاد ہو گا کہ ایک رکنِ حج یعنی ’’سعی بین الصّفا والمروۃ‘‘ کا ذکر اس سورۂ مبارکہ کے نصف ثانی کے بالکل آغاز میں آیت ۱۵۸ میں کر دیا گیا تھا.

معاملات

جہاں تک معاملاتِ انسانی کا تعلق ہے ‘اس سورۂ مبارکہ کو شریعت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ضمن میں وہی مقام حاصل ہے جو کسی عمارت کی تعمیر کے ضمن میں اس کے نقشے کے ابتدائی خاکے (Blue Print) کو حاصل ہوتا ہے.اس لیے کہ زندگی کے تمام پہلوؤ ں سے متعلق ابتدائی احکام اس سورت میں دیے گئے ہیں او ران سے شریعت ِ اسلامی کا ابتدائی خاکہ تیار ہو گیا ہے.بعد میں زیادہ تو سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں‘ اور کسی قدر سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب وغیرہا میں تکمیلی احکام نازل ہوئے‘ جن سے اس عمارت کا اتمام و اکمال ہو گیا ‘بفحوائے الفاظِ قرآنی:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ .... (المائدۃ:۳
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے…‘‘

چنانچہ سب سے پہلے آیات ۱۶۸ تا ۱۷۳ میں کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کا ضابطہ بیان کیا گیا‘ جس کے ضمن میں تکمیلی احکام سورۃ المائدۃ کے پہلے رکوع میں آئے! پھر آیات ۱۷۸۱۷۹ میں قتل کے ضمن میں قصاص اور دیت کے احکام بیان ہوئے.پھر آیات ۱۸۰ تا۱۸۲ میں وصیت کا حکم دیا گیا جو گویا اسلام کے قانونِ وراثت کی تمہید تھا ‘جو بعد میں سورۃ النساء میں نازل ہوا. پھر آیت ۱۸۸ میں حرام خوری اور بالخصوص رشوت کی ممانعت کی گئی.

پھر آیت ۲۱۹ میں شراب اور جوئے کی حرمت کی تمہید باندھی گئی‘ جس کی تکمیل سورۃ المائدۃمیں ہوئی.پھر آیت ۲۲۰ میں یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی. یہ بھی گویا تمہید ہے اس تفصیلی ہدایت کی جو سورۃ النساء کے رکوع اوّل میں آئی ہے. پھر اوّلاً آیت ۲۲۱ میں مشرکہ عورتوں سے نکاح کی ممانعت وارد ہوئی اور اس کے بعد آیات ۲۳۳ تا ۲۴۲ میں نکاح‘طلاق‘ایلاء‘خلع‘رضاعت‘بیویوں کا نان و نفقہ‘بیوہ کے حقوق‘مہر اور ازدواجی زندگی کے دوسرے بہت سے معاملات سے متعلق تفصیلی احکام دیے گئے‘ جن پر بعد میں مزید اضافوں سے اسلام کے عائلی نظام کا حسین و جمیل اور پاک و صاف قصر تعمیر ہوا. 

پھر آخری حصے میں ‘جو ترتیب نزولی کے اعتبار سے مدنی دَور کے آخر سے تعلق رکھتا ہے‘ اوّلاً آیات ۲۷۵ تا ۲۸۱ میں سُود کی حرمت کا بیان نہایت سخت الفاظ میں ہوا. ثانیاً آیت ۲۸۲ میں قرض اور اس سلسلے کی لکھت پڑھت اور گواہی و شہادت کے قانون کی تفصیل آئی‘اور اسی کے ضمیمے کے طور پر آیت ۲۸۳ میں رہن کا ضابطہ بیان ہوا ‘اور اس طرح‘ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ شریعت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا ابتدائی خاکہ تیار ہو گیا.