دوسری چیز جو منافقین پر بہت گراں گزرتی تھی وہ تھا جہاد اور قتال کا حکم ‘جس میں جان و مال کو کھپانا پڑتا تھا اور شدید خطرات مول لینا پڑتے تھے. چنانچہ آیت ۷۱ سے قتال فی سبیل اللہ کا موضوع شروع ہوا .اور پہلے تو واضح الفاظ میں حکم دیا گیاکہ اے اہل ایمان! اپنی حفاظت کا سامان (یعنی تیرو تلوار اور ڈھال وغیرہ) ہاتھ میں لو اور نکلو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے‘ باقاعدہ فوج کشی کے انداز میں بھی اور چھاپہ مار جنگ کے طریقے پر بھی! اور پھر ان لوگوں کو نہایت بلیغ پیرائے میں ملامت کی گئی جو اللہ کی راہ میں جنگ کرنے سے گریز کی راہیں تلاش کرتے رہتے تھے اور کبھی جان بوجھ کر تأخیر و تعویق کے بہانے بنا کر پیچھے رہ جاتے تھے اور کبھی دہائی دیتے تھے کہ: ’’اے ہمارے ربّ! تو نے ہم پر یہ قتال کیوں فرض کر دیا ؟ تو نے ہمیں مزید مہلت کیوں نہ دی؟‘‘(آیت ۷۷) اس ضمن میں ترغیب اور تشویق کے لیے ایک طرف حیاتِ دُنیوی کے مقابلے میں حیات ِ اُخروی کی سعادتوں اور اللہ کے اجر و ثواب کا حوالہ دیا اور دوسری طرف اُن کی غیرت و حمیت کو للکارا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اِن کمزور اور ستائے ہوئے مسلمانوں کی نصرت و امداد کی غرض سے جہاد نہیں کرتے جو مشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں؟ اور تیسری طرف اس حقیقت کی جانب بھی توجہ دلائی کہ اگر موت کا خوف آڑے آ رہا ہے تو موت سے تو کوئی مفر نہیں‘وہ تو خواہ تم پہروں والے قلعوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ وہاں بھی تمہیں آدبوچے گی.

یہ مضمون آیت ۸۴ میں اپنے نقطۂ عروج (climax) کو پہنچ گیا ہے جس میں فرمایا گیا: ’’اے نبی! (اگر یہ اللہ کی راہ میں قتال سے جی چرائیں تب بھی) آپ جنگ کریں اللہ کے راستے میں. آپ پر اصلاً صرف اپنی ہی ذمہ داری ہے‘ البتہ اہل ایمان کو اس کے لیے اُبھارتے رہیں. کیا عجب اللہ اہل کفر کی جنگی قوت توڑ دے. اور اللہ بہت سخت ہے لڑائی میں اور بہت سخت ہے سزا دینے میں‘‘. اس آیت سے مؤمنین صادقین کے قلوب پر کیا قیامت گزری ہو گی! اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا وہ کیسے تڑپ اُٹھا ہو گا‘اور ضعف ِ ارادہ کا زنگ دلوں سے کیسے صاف ہو گیا ہو گا! اس کی ایک مثال اگلی سورت یعنی سورۃ المائدۃ میں بھی ہے ‘جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول نقل ہوا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے قتال سے انکار کیا تو انہوں نے بارگاہِ ربانی میں عرض کیا:

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ 
’’اے میرے ربّ! مجھے سوائے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے اور کسی پر کوئی اختیار حاصل نہیں‘ پس تو ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے مابین جدائی ڈال دے‘‘.
ف
رق صرف یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی تو عظیم اکثریت نے قتال سے انکار کیا تھا اوراُمت ِمحمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے صرف چند گنے چنے منافق تھے جنہوں نے جنگ سے جی چرایا.