(۲) اس کے بعد آیات ۹۷ تا ۱۰۰ میں مزید وضاحت کر دی کہ ’’ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب ملائکہ ان کی جانیں قبض کرتے ہیں اور ملامت کرتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟‘‘ یعنی تمہارے ایمان نے کیسے گوارا کر لیا کہ ہجرت نہ کرو بلکہ دارالکفر ہی میں ڈیرہ لگائے رہو ؟تو وہ عذر پیش کریں گے کہ:’’ہم زمین میں مغلوب ہو گئے تھے اور ہمیں دبا لیا گیا تھا.‘‘ جواب ملے گا : قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ ’’کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں (کسی جانب) ہجرت کر جاتے؟‘‘ پھر صاف اعلان کر دیا گیا کہ: فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿ۙ۹۷﴾ ’’پس اُن کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے.‘‘
(۳) اس شدید و عید سے مستثنیٰ کیا گیا صرف ان معذور و مجبور لوگوں یا عورتوں اور بچوں کو جن کو نہ ذرائع سفر حاصل ہوں نہ راستے ہی کا علم ہو.
(۴)ا ور آخر میں ترغیب اور تشویق کے لیے وضاحت فرما دی گئی کہ جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ اللہ کی زمین میں وُسعت بھی پائے گا اور پناہ کی جگہیں بھی.بقول شاعر: ؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے!
اور یہ کہ جو اثنائے سفر ہجرت میں واصل بحق ہو گیا اس سے قبل کہ دارالہجرت یعنی مدینہ منورہ پہنچ سکے ‘وہ اللہ کے یہاں مہاجر ہی شمار ہو گا اور اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘ جیسا کہ آنحضورﷺنے فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (۱) ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے!‘‘