حاملین شریعت کی ذِمہ داری اور مسئولیت

شریعت کے ضمن میں آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ ایک معاہدہ ہے اللہ اور حامل شریعت اُمت کے مابین. اس کی خلاف ورزی معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس میں سہل انگاری سے عاقبت کی تباہی کا خطرہ ہے. یہ مضمون اس سورت میں تین اسلوبوں سے آیا ہے ‘اور تینوں کے ضمن میں سابقہ اُمتوں کا حوالہ اور اُن کی محرومی کا بیان بھی آ گیا ہے.

(۱) لفظ ’’میثاق‘‘ کے حوالے سے:چنانچہ آیت ۷ میں مسلمانوں سے فرمایا: ’’اوریاد رکھنا اپنے اوپر اللہ کی اُس نعمت کو اور اللہ کے اُس میثاق کو جس میں اُس نے تمہیں جکڑ لیا ہے جب تم نے کہا کہ ’ہم نے سنا اور مانا‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو. یقینا اللہ دلوں کے حال سے باخبر ہے!‘‘ اور پھر آیات ۱۲ تا ۱۴ میں فرمایا کہ اسی طرح ہم نے ’’میثاق‘‘ لیا تھا بنی اسرائیل سے بھی اور نصاریٰ سے بھی‘ لیکن انہوں نے اسے جان بوجھ کر توڑا بھی اور طاقِ نسیاں کی زینت بھی بنا دیا. گویا یہی سبب ہے اس کا کہ شریعت کی نعمت اُن سے چھین کر تمہیں دی جارہی ہے.

(۲حُکْم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی اصطلاح کے حوالے سے :اس ضمن میں آیت ۱ میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ ﴿۱﴾ ’’یقینااللہ جو چاہتاہے حکم دیتا ہے‘‘. آیت ۴۴ میں فرمایا: ’’یقیناہم نے ہی تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت بھی تھی اور روشنی بھی‘جس کے ذریعے فیصلہ کرتے تھے (اللہ کے )نبی!‘‘ اس کے بعد آئے آیات ۴۴۴۵۴۷ میں لرزہ طاری کر دینے والے الفاظ‘ جن کا حاصل یہ ہے کہ: ’’جو لوگ اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں!‘‘ اور یہی تھا وہ جرمِ عظیم جس کے مرتکب ہوئے یہود بھی اور نصاریٰ بھی. آخر میں آیات۴۸۴۹ میں بتکرار و اعادہ آنحضور کو خطاب کر کے فرمایا: ’’فیصلہ کیجیے اُن کے مابین اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق!‘‘ اور آیت ۵۰ میں جھنجھوڑنے کے انداز میں فرمایا:’’کیا یہ جاہلیت کے فیصلوں کے طلب گار ہیں؟ اور اہل ایمان ویقین کے لیے اللہ کے حکم سے بہتر اور کس کا فیصلہ ہو سکتاہے!‘‘

(۳’’اقامت مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کی اصطلاح کے حوالے سے:چنانچہ پہلے آیت ۶۶ میں اہل کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’اوراگر وہ قائم کرتے توراۃ اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا تھا اُن کی طرف اُن کے ربّ کی جانب سے تو لازماً کھاتے (یعنی ان کے لیے برکتیں نازل ہوتیں) اپنے اوپر سے بھی اور اپنے پاؤں تلے سے بھی! (یعنی زمین سے بھی رزق کے چشمے پھوٹتے)‘‘ اور پھر آیت ۶۸ میں ڈنکے کی چوٹ اعلان کر دیا گیا کہ:’’کہہ دو (اے نبی!) کہ اے اہل کتاب !تمہاری کوئی بنیاد ہی نہیں ہے جب تک کہ تم قائم نہ کرو تورات و انجیل کو اور اُس چیز کو جو تمہاری طرف تمہارے ربّ کی جانب سے نازل کی گئی!‘‘

کاش کہ مسلمان اس آیت کو صرف ’’یٰٓــاَھْلَ الْکِتَابِ‘‘ کے بجائے ’’یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ‘‘ کے الفاظ اپنے ذہن میں رکھ کر پڑھ سکیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ خدا کی رحمت ہم سے کیوں روٹھی ہوئی ہے اور ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں. چنانچہ اِسی خطاب ’’یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ‘‘ سے آغاز ہوتا ہے ایک حدیث کا جس میں آنحضور نے مسلمانوں کو حامل قرآن ہونے کی ذمہ داریوں سے آگاہ فرمایا ہے.