لوگوں پر اللہ کی جانب سے حق کی شہادت اور اِتمامِ حجت کا جو فریضہ انبیاء و رُسل علیہم السلام ادا کرتے رہے اور جواَب اُمت ِمسلمہ پر عائد کر دیا گیا ہے‘ اس کے ضمن میں اس سورۂ مبارکہ میں:

(۱) ایک تو وہی عظیم الفاظ ذرا ترتیب لفظی کے فرق کے ساتھ آیت ۸ میں آئے جو اِس سے قبل سورۃ النساء کی آیت ۱۳۵ میں آ چکے ہیں‘ یعنی: ’’اے اہل ایمان! پوری قوت اور استقامت کے ساتھ اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ‘عدل و انصاف کے گواہ بن کر!‘‘ اس مزید اضافے کے ساتھ کہ: ’’اورکسی قوم کی عداوت تمہیں اس پر ہرگز آمادہ نہ کر دے کہ تم جادۂ عدل سے منحرف ہو جاؤ.عدل کرو‘یہ تقویٰ کے زیادہ قریب (تقویٰ سے مناسبت رکھنے والی چیز )ہے!‘‘ اس مضمون کی تاکید ِمزید اس سے قبل اس سورۂ مبارکہ کی آیت ۲ میں آچکی تھی اس اضافے کے ساتھ کہ مسلمانوں کو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کے لیے ہر دم تیار رہنا چاہیے اور گناہ اور ظلم میں کبھی تعاون نہیں کرنا چاہیے.

(۲) اور دوسرے یہ کہ اس سورۂ مبارکہ کے اختتام پر آیات ۱۰۹ تا ۱۲۰ میں ایک جھلک دکھا دی اس حقیقت کی جس کی خبر دی گئی تھی سورۃ النساء کی آیت ۴۱ میں کہ قیامت کی عدالت میں انبیاء و رُسل ؑ اور داعیانِ حق سرکاری گواہوں کی حیثیت سے اپنی اُمتوں کے خلاف گواہ بنا کر کھڑے کیے جائیں گے. چنانچہ نقشہ کھینچ دیا گیا کہ کیسے حضرت مسیح علیہ السلام گواہی دیں گے کہ اے ربّ میں نے انہیں ہرگز حکم نہیں دیا تھا مگر انہی باتوں کا جن کا تو نے مجھے حکم فرمایا تھا.باقی اپنی تمام اعتقادی کجیوں اور عملی گمراہیوں کے ذمہ دار یہ خود ہیں.