حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر کو اس سورۂ مبارکہ میں مرکزی اہمیت حاصل ہے اور ان کی سرگزشت میں دراصل ایک جھلک دکھا دی گئی ہے اس صورتِ حال کی جو اِس سورت کے نزول کے وقت سر زمینِ مکہ میں بالفعل موجود تھی ‘ کہ ایک جانب آنحضور اور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور دوسری طرف سردارانِ قریش اور ان کے متبعین .اور نقشہ بعینہٖ وہی تھا کہ: ؎ 

آگ ہے ‘اولادِ ابراہیم ہے ‘نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟

اور : ؎ 

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!

سورۃ الانعام کے نزول کے وقت مکہ میں یہ کشمکش انتہائی شدت کو پہنچ گئی تھی اور معلوم ہوتا ہے کہ ہرطرف سے لاجواب ہو کر سردارانِ قریش نے آخری مورچہ اس مطالبے پر لگا لیا تھا کہ ’’اگر تم واقعتا نبی یا رسول ہو تو کوئی محسوس معجزہ دکھاؤ !‘‘ اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے اِس مطالبے کی ظاہری معقولیت سے عوام کی اکثریت بھی متأ ثر ہو گئی تھی‘اور اس طرح اُس نے گویا ایک عوامی مطالبے کی صورت اختیار کر لی تھی. اُدھر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ گویا یہ تھا کہ نسل انسانی اس عہد ِطفولیت سے گزر آئی ہے جس میں اُسے حِسّی معجزوں کی ضرورت ہوتی تھی. اب جسے بات سمجھنی ہے وہ عقل اور دلیل سے سمجھے‘ اور جہاں تک دلیلوں اور نشانیوں کا تعلق ہے تو وہ آفاق واَ نفس میں بھی چپے چپے پر موجود ہیں ‘اور ان پر مستزاد قرآنِ حکیم کی آیاتِ بیّنات ہیں جنہوں نے اُن کو معجزانہ انداز میں اُجاگر کر دیا ہے. جو فی الواقع ہدایت کا طالب ہو اُس کی ہدایت کا توپورا سامان ان میں موجود ہے‘رہے وہ جن کی عقلوں پر پردے پڑ چکے ہوں اور دلوں پر مہر لگ چکی ہو‘ تو اُن کے حق میں بڑے سے بڑا حسّی معجزہ بھی مفید نہیں. اس صورتِ حال میں ظاہر ہے کہ نبی اکرم اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان کے صبر کا ایک سخت امتحان مضمر تھا. اور بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بعض اہل ایمان کے دلوں میں بربنائے طبع بشری اِس خیال کا پیدا ہو جانا بالکل فطری تھا کہ اگر ان کا مطالبہ پورا کر دیا جائے اور ان کی پسند کا کوئی حسّی معجزہ دکھا ہی دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ کیا عجب کہ یہ لوگ ایمان لے آئیں‘ورنہ کم از کم ان کی معقولیت اور حق پسندی کا پول تو کھل ہی جائے گا. یہی وجہ ہے کہ یہ موضوع اس سورۂ مبارکہ میں جا بجا زیر بحث آیا ہے اور اس بحث کے اعتبار سے یہ سورت قرآن مجید کے ذَروۃُ السنام یعنی چوٹی کی حیثیت رکھتی ہے.
چنانچہ آیات ۴۸۴۹ میں فرمایا:

’’اورہم (اپنے) رسولوں کو صرف بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجتے ہیں‘پس جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اُن پر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے. اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں ان کو عذاب آ پکڑے گا بسبب اپنی نافرمانیوں کے ( وہ اپنی نافرمانیوں کی سزا بھگت کر رہیں گے)!‘‘

آیت ۱۰۴ میں فرمایا:
’’(دیکھو! )تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے بصیرت عطا کرنے والی آیات آ چکی ہیں‘تو جو بصیرت سے کام لے گا اُس کا فائدہ اُسی کو ہو گا‘ اور جواندھا بنا رہے گا تو اُس کا وبال بھی اُسی پر آئے گا .اور میں ہرگز تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں!‘‘

آیت ۵۰ میں فرمایا:
’’کہہ دو(اے محمدؐ ) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں.میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے!‘‘

آیت ۷ تا ۹ میں فرمایا:
’’اور(اے نبیؐ !) اگر ہم آپ پر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی نازل کر 
دیتے اور لوگ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک صریح جادو . اور وہ کہتے ہیں اِن (حضرت محمدؐ ) پر فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا؟ اگر ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو لازماً (ان کا) فیصلہ ہی چکا دیا ہوتا‘پھر کوئی مہلت انہیں نہ ملتی .اور اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے فرشتے کو تو اُسے بھی ہم لازماً انسان ہی کی صورت میں بھیجتے اور انہیں اسی اشتباہ میں ڈال دیتے جس میں یہ اِس وقت مبتلا ہیں.‘‘

یہ مضمون پورے قرآن مجید میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا ہے اِس سورۂ مبارکہ کی آیات ۳۳ تا۳۶ میں‘جن کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے دل لرزتا ہے. اس لیے کہ ان میں بظاہر آنحضور پر عتاب فرمایا گیا ہے .لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایسی آیات میں اگرچہ خطاب بظاہر آنحضور سے ہوتا ہے لیکن عتاب کا رُخ دراصل کفاراور معاندین کی جانب ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بے جا ہٹ دھرمی اور عیارانہ مطالبات سے گویا آنحضور اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کو اس درجہ زچ کر دیا کہ بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ کیوں نہ انہیں اُن کا مطلوبہ معجزہ دکھا ہی دیا جائے.اس تصریح کے بعد آیات کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

’’(اے نبیؐ !) ہمیں خوب معلوم ہے کہ اُن کی باتوں سے آپ کو رنج پہنچتا ہے‘ لیکن یہ لوگ آپ کو تو نہیں جھٹلا رہے‘ یہ ظالم تو دراصل اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں. آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کی تکذیب کی گئی‘ لیکن انہوں نے اس تکذیب اور ایذا پر صبر کیاجو انہیں پہنچائی گئی یہاں تک کہ اُن کے لیے ہماری مدد آپہنچی. اللہ کی باتوں کا بدلنا کسی کے بس میں نہیں. اور سابق رسولوں (کے حالات) کی خبریں آپ تک پہنچ ہی چکی ہیں. اور اگر (پھر بھی) آپ پر ان کا اعراض (اور انکار) گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو زمین میں کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگا کر اُن کے لیے کوئی نشانی لے آیئے.اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو (زبردستی) حق پر جمع کر دیتا‘ پس آپ ناسمجھوں میں سے نہ ہوں. دراصل (اس دعوتِ حق پر) لبیک وہی کہتے ہیں جو (فی الواقع) سننے والے ہوں. رہے وہ جو (حقیقت کے اعتبار سے )مر چکے ہیں تو انہیں تواللہ ہی دوبارہ اٹھائے گا ‘ پھر وہ اسی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے!‘‘

کفار اور معاندین کی اسی معنوی موت کی تعبیر آیت ۲۵ میں اِن الفاظ میں کی گئی:

’’اوران میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر تو آپ کی بات پوری طرح کان لگا کر سنتے ہیں ‘لیکن (فی الواقع) ہم نے اُن کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے سمجھ نہ پائیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے. اور اگر وہ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تو اُن پر ایمان نہیں لائیں گے!‘‘

واضح رہے کہ اللہ کا کفار کے دلوں پر پردہ ڈالنا ابتداء ً نہیں بلکہ ان کے اعراض و انکار کی سزا کے طو رپر ہے. جیسا کہ اسی سورت کی آیت ۱۱۰ میں واضح کر دیا گیا کہ:

’’اورہم الٹ دیتے ہیں اُن کے دلوں اور اُن کی نگاہوں کو جیسے کہ وہ ایمان نہیں لائے تھے( جبکہ حق ان پر منکشف ہو چکا تھا) پہلی بار‘اور ہم چھوڑ دیتے ہیں انہیں ان کی اپنی سرکشی ہی میں بھٹکتے رہنے کو!‘‘