اہل کتاب‘بالخصوص یہود کی جانب اس سورۂ مبارکہ میں چار مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں. ایک آیت ۲۰ میں جہاں فرمایا گیا ہے کہ:

’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی وہ اسے (یعنی آنحضور یا قرآن مجید کو) بالکل اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو.(یہ دوسری بات ہے کہ) جو لوگ اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں پس وہ (ہرگز) ایمان نہیں لائیں گے!‘‘
دوسرے آیات۹۱۹۲ میں جہاں یہود کی اس ڈھٹائی کا ذکر کیا گیا کہ آنحضور کی دعوت کا راستہ روکنے کی دُھن میں وہ یہ تک کہہ گزرے کہ اللہ نے کبھی کسی انسان پر کچھ 
نازل نہیں کیا! چنانچہ بڑے بلیغ پیرائے میں اُن سے سوال کیا گیا کہ:
’’(اے نبیؐ ! ان سے )پوچھو کہ پھر اس کتاب کو کس نے نازل کیا تھاجسے موسیٰ ؑ لایا تھا‘جو انسانوں کے لیے روشنی بھی تھی اور ہدایت بھی جسے تم نے پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ہے کہ کچھ کو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو؟‘‘

بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سوال پر یہود میں سے جس میں بھی حق پسندی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو گی اس کا سرندامت سے کس طرح جھک گیا ہوگا! تیسرے آیت ۱۴۶ میں جہاں واضح کیا گیا کہ کھانے پینے کے ضمن میں جو سخت قدغنیں یہود پر لگائی گئی تھیں وہ شریعت اسلامی کا مستقل جزو نہ تھیں‘ بلکہ اُن کی سرکشی کی سزا کے طور پر عائد کی گئی تھیں .اور آخری اور چوتھی بار آیت ۱۵۴ میں جہاں تورات کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کیا گیا کہ:

’’پھرہم ہی نے موسٰی ؑکو وہ کتاب عطا کی تھی جو نیک کام کرنے والے (خیر کے طالب اور بھلائی کے خواہاں) انسانوں پر نعمت کی تکمیل اور تمام ضروری اُمور کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت پر مشتمل تھی!‘‘
وہاں اس کے ساتھ ہی وارد ہوا قرآن مجید کا ذکر آیت ۱۵۵ میں: 

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوۡہُ وَ اتَّقُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ
’’اور (اسی طرح) یہ کتاب ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے‘سراپا خیر و برکت. پس اس کی پیروی کرواور تقویٰ کی روش اختیار کرو‘ تاکہ تم پر رحمت کا نزول‘ہو!‘‘