پس پہلے تین سال تو جناب محمد رسول اللہ  اس بدترین ذہنی و اعصابی تشدد کا نشانہ بنے رہے. آغازِ وحی کے بعد چوتھے سال سردارانِ قریش دارالندوہ میں باقاعدہ مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب تک ہم نے جو تدبیریں کی ہیں وہ سب ناکام ہو چکی ہیں اور یہ دعوت جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے.گویا ؏ ’’نظامِ کُہنہ کے پاسبانو! یہ معرضِ انقلاب (۱میں ہے‘‘. او راب تو یہ آگ ہمارے بارود خانوں تک پہنچ گئی ہے اور ہمارے غلاموں کے طبقہ کے لوگ محمد (  ) کی دعوت کے حلقہ بگوش ہو گئے ہیں. ان کو یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ اب کیا ہوگا؟ کیونکہ غلاموں کا طبقہ اس معاشرے کے لئے بڑی افراد ی قوت (Human Potential) کی حیثیت رکھتا تھا. اس نظام میں غلام اپنی قسمت پر قانع تھے او راس کے ساتھ خود کو Reconcile (۲کر چکے تھے کہ ٹھیک ہے، ہمارے نصیب میں یہی کچھ ہے. لیکن اگر کہیں ان کے اندر ان کی عزتِ نفس بیدار کر دی گئی، اور انہیں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہم بھی انسان ہیں اور ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں تو کیا ہوگا؟ ہمارا نظام تلپٹ ہو کر رہ جائے گا. یہ طاقت اگر کہیں ہمارے خلاف کھڑی ہو گئی تو اس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا. اس کے علاوہ ان کی اس تشویش میں روزبروز اضافہ ہو رہا تھا کہ جناب محمد رسول اللہ کی دعوت ان کے نوجوانوں میں نفوذ کر رہی ہے جو ایک بڑے خطرہ کی علامت ہے. آپ اندازہ کیجئے کہ عثمان بن عفانؓ کون ہیں؟ خاندانِ بنو اُمیّہ کاایک صالح نوجوان. مُصعب بن عمیر، سعد ابی بن وقاص، حذیفہ بن عتبہ اور عبداللہ بن مسعود کون ہیں؟ رضی اللہ تعالیٰ عنہم. یہ اونچے گھرانوں کے نوجوان ہیں.

یہ اور متعدد دوسرے نوجوان محمد  کے (۱) انقلاب لانے کے لئے تیار ہیں (۲) مصالحت کر لینا، حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا قدموں میں پہنچ گئے. لہذا کفار مکہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اب تک ہماری جو حکمت عملی تھی وہ کامیاب اور مؤثر ثابت نہیں ہوئی. لہذا فیصلہ ہوا کہ اب ان پر جسمانی تشدد کرو تاکہ ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں. ہم میں سے جس کو بھی جس کسی پر کوئی اختیار اور کوئی اقتدار حاصل ہے وہ اسے ان پر استعمال کرے اور ان کو جور (۱و تعدی (۲اور ظلم وستم کا نشانہ بنائے تاکہ وہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آئیں. چنانچہ آغازِ وحی کے چوتھے سال اہل ایمان کے لئے جسمانی تشدد کا دور شروع ہوا. پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ابتدائی تین سال تک تو ذہنی تشدد(Torture) کا ہدف خاص طور پر حضور  کی ذاتِ اقدس رہی . لیکن اب قریباً تمام اہل ایمان شدید قسم کی تعذیب، تعدی اور بہیمانہ ظلم و ستم کا ہدف بنے. مثلاً حضرت عثمان ؓ ہیں ،وہ غلام نہیں ہیں، کوئی آقا تو ان کو نہیں مار سکتا. لیکن وہاں کے معاشرے کے اصول و رواج کے مطابق آنجناب ؓ کا چچا موجود ہے جو بمنزلہ باپ ہے اور اسے اپنے بھتیجے پر اختیار حاصل ہے. اس نے حضرت عثمان ؓ کو مارا بھی اور بالآخر ایک چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھونی دے دی. اب دم گھٹ رہا ہے اور مرنے کے قریب ہیں. آخر کوئی وجہ تھی کہ جب نبوت کے پانچویں سال میں حضور  نے چند صحابہ ؓ کو ہجرت حبشہ کی اجازت دی تو حضرت عثمان ؓ او رآپؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ ؓ ، جو رسول اللہ  کی لخت جگر ہیں، یہ دونوں ان میں شامل تھے. جعفرؓ بن ابوطالب بھی ان مہاجرین میں شامل تھے جو بنوہاشم کے سردار کے بیٹے اور حضرت علیؓ کے بھائی ہیں. یہ لوگ غلام تو نہیں تھے. لیکن وہاں بزرگوں کو خوردوں (۳پر ایک اختیار حاصل تھا، لہذا یہ نوجوان اہل ایمان اپنے گھر والے مشرکین کے تشدد اور مظالم کا نشانہ بن رہے تھے.

لیکن غلاموں کے ساتھ اس سے بھی بہت آگے بڑھ کر جور و ستم کا معاملہ ہوا ہے. ظاہر بات ہے کہ ظلم و تشدد کی چکی میں سب سے زیادہ پسنے والے یہی لوگ تھے. ان کے تو کوئی حقوق تھے ہی نہیں، کیونکہ وہ اپنے آقاؤ ں کے مملوک تھے. ان کے آقا اگر انہیں ذبح کر دیں تو ان سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا تھا. جیسے کسی کی بکری ہو تو وہ جب چاہے اسے ذبح 
(۱) ظلم (۲) حد سے گزرنا، زیادتی (۳) چھوٹوں کر دے، کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا. یہی وجہ ہے کہ غلاموں کے ساتھ وہاں جو کچھ ہوا اس کو سن کر سخت سے سخت دل شخص کو بھی جھرجھری آجاتی ہے. حضرت بلال ؓ کے ساتھ اُمیہ بن خلف نے جو کچھ کیا وہ آپ کے علم میں ہے. لیکن کوئی نہیں تھا جو اس سے پوچھ سکے کہ تم کیا کر رہے ہو؟ ایک گوشت پوست کے زندہ انسان کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک کیا جا رہا تھا جو اگر کسی مردہ جانور کے ساتھ بھی کیا جائے تو طبیعت میں ناگواری کا احساس پیدا ہو جائے، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا.

مکہ میں ان کے علاوہ ایک اور طبقہ تھا جو حلیفوں کا طبقہ کہلاتا تھا، جو نہ قرشی تھے، نہ غلام تھے، بلکہ بین بین کی ایک حیثیت کے حامل تھے.د راصل مکہ صرف ایک قبیلے کا شہر تھا، اس میں صرف قریش آباد تھے، اور کوئی دوسرا قبیلہ آباد نہیں تھا… اس تفاوت کو پیش نظر رکھئے کہ تمدنی اعتبار سے مدینہ منورہ زیادہ ارتقائی مرحلے پر تھا، اس میں پانچ قبائل آباد تھے، عربوں کے دو قبائل اوس و خزرج اور یہودیوں کے تین قبائل بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنوقریظہ … جب کہ مکہ تمدنی اعتبار سے ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا اور صرف ایک قبیلے کا شہر تھا. اب اس میں یا تو قریش آباد تھے یا اُن کے غلام جو اُن کے نزدیک بھیڑ بکریوں کی حیثیت رکھتے تھے. ایک تیسری 
Category (۱وہ تھی کہ کوئی شخص باہر کاآ کر اگر خود کو قریش کی کسی بڑی شخصیت کی حمایت میں دے دے، اس کا حلیف بن جائے تو گویا وہ اس بڑے شخص کے زیر حفاظت مکہ میں رہ سکتا ہے. اس طرح اس قرشی کو اس پر پورا اختیار حاصل ہو جائے گا. اس کی حیثیت اگرچہ غلام کی نہیں ہے لیکن وہ پوری طرح آزاد بھی نہیں. وہ گویا آزادوں اور غلاموں کے بین بین ایک تیسری مخلوق ہو گئی.

حضرت یاسرؓ کا معاملہ یہی تھا. بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یمن کے رہنے والے ایک باعزت انسان تھے. انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں ان کو حضور  کی بعثت کی بشارت ہوئی تھی. اس کے پیش نظر وہ مکہ میں آئے اور ایک شریف النفس قرشی کے حلیف بن کر اور اس کی پناہ میں آ کر مکہ میں سکونت پذیر ہو گئے. اسی شخص کی ایک (۱) درجہ کنیز حضرت سمیہ ؓ سے آقا کی اجازت سے ان کا نکاح ہو گیا اور اس طرح یہ ایک خاندان بن گیا. وہ قرشی لاولد مر گیا اور جو شخص اس کا وارث اور جانشین بنا وہ ابوجہل تھا. چنانچہ اب وہی حیثیت آلِ یاسرؓ پر ابوجہل کو حاصل ہو گئی. حضرت یاسرؓ غلام تو نہیں ہیں لیکن ابوجہل کے حلیف اور اس کی پناہ میں ہیں. اس لئے کوئی اورابوجہل سے نہیں پوچھ سکتا کہ تم اس خاندان کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مسلسل اور بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے یہ میاں بیوی اور ایک ان کے بیٹے حضرت عمارؓ ہیں. یہ تینوں حضور  پر ایمان لے آئے تھے. ان پر ابوجہل نے شدید ترین مظالم کئے. حضرت سمیہؓ کو شوہر اور بیٹے کی نگاہوں کے سامنے انتہائی بہیمانہ طو رپر شہید کیا. یہ ایک مؤ منہ کا پہلا خون تھا جس سے مکہ کی سرزمین لالہ زار ہوئی. پھر حضرت یاسرؓ کے ہاتھ پاؤ ں چار سرکش اونٹوں کے ساتھ باندھ کر انہیں چار سمتوں میں ہانک دیا گیا جس سے ان کے جسم کے پرخچے اڑ گئے.