مکی دور کے بارہ برس تک اہل ایمان کو یہ حکم تھا کہ کسی تشدد، ظلم، اور زیادتی کے جواب میں ہاتھ نہ اُٹھاؤ. سورۂ نساء کی مندرجہ ذیل آیت تو مدینہ میں ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے اور وہ بھی مدنی دور کے پانچویں یا چھٹے سال، جس کے الفاظ ہیں اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ (النساء:۷۷’’کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کی طرف جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو‘‘ یہ حکم مکی دور کی کسی سورۃ میں نہیں ملے گا… یہ ایک بہت اہم مثال ہے اس بات کی کہ عمل کے اعتبار سے بسااوقات سنتِ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام قرآن مجید پر مقدم ہوتی ہے. ذرا غور کیجئے کہ مدنی سورت کی ایک آیت میں ذکر ہو رہا ہے اس اسلوب سے کہ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ’’ان سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ باندھے رکھو‘‘. تو کہنے والا کون تھا؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ اس نوع کی کوئی آیت قرآن مجید میں موجود نہیں ہے. معلوم ہوا کہ وہ حکم تھا جناب محمد رسول اللہ  کا. تاہم اس میں دونوں امکانات ہو سکتے ہیں.

ایک یہ کہ حضور  کا اپنا ذاتی اجتہادی فیصلہ ہو. اس کی اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفی نہیں ہوئی تو توثیق ہو گئی. جیسے کہ حدیث کی اقسام میں ایک ’’تقریری حدیث‘‘ ہے کہ حضور  کے سامنے ایک کام ہوا اور آپ  نے اس سے روکا نہیں، تو اسے بھی سنت ہونے کی سند حاصل ہو گئی. اس لئے کہ اگر یہ کام غلط ہوتا تو حضور  اس سے منع فرما دیتے. تو یہ گویا اللہ کی طرف سے ’’تقریر‘‘ ہو گئی. دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ وحی خفی یا وحی غیر متلو کے ذریعے سے حضور  کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہو اور اسے آپ  نے صحابہ کرام ؓ تک پہنچا دیا ہو اور بعد میں سورۂ نساء میں اس وحی خفی کا اس وحی جلی اور وحی مَتْلو میں ذکر آ گیا کہ ان سے کہا گیا تھا ’’کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ‘‘ کہ ’’اپنے ہاتھوں کو بندھے رکھو‘‘، (روکے رکھو) No Retaliation . کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوگی.یہاں تک کہ اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے.

آگے فرمایا 
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ اُس وقت حکم یہ تھا کہ نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتے رہو. یعنی تربیت ہی کا مرحلہ تھا ؎

با نشّۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن

ابھی ’’بر سلطنت ِ جم زن‘‘ کا حکم نہیں آیا تھا. بلکہ تربیت اور تیاری کا مرحلہ تھا. اللہ سے زیادہ سے زیادہ لو لگاؤ . اللہ کی محبت دلوں میں مزید جماؤ . اپنے عزم و ارادہ کو اور زیادہ تقویت دو. اللہ کی راہ میں مصائب و تکالیف جھیلنے کا خود کو زیادہ سے زیادہ عادی اور خوگر بناؤ. بقول اقبال ؎
نالہ (۱) ہے بلبلِ شوریدہ (۲) ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی 

صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں جوش اور ولولہ پید اہو رہا تھاکہ ہمیں باطل کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے، اس سے پنجہ آزمائی کرنی چاہئے. چنانچہ سورۂ نساء کی اس آیت کی (۱) آہ وزاری (۲) پریشان تفسیر میں امام رازیؒ نے امام طبری ؒ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں متعدد صحابہؓ مثلاً عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور بعض دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) کا نام مذکور ہے، کہ یہ وہ حضرات تھے جو بار بار حضور  کی خدمت میں عرض کیا کرتے تھے کہ اب ہمیں قتال کی اجازت ملنی چاہئے، ہم کب تک برداشت کریں گے! تصور کیجئے کہ جب مکہ میں حضرت سمیہ ؓ پر ظلم کیا جا رہا تھا جو صنفِ نازک میں سے تھیں، پھر بوڑھی بھی، تو کم ازکم چالیس مسلمان موجود تھے. کیا ان کا خون کھولتا نہیں ہوگا؟ کیا وہ جوش میں نہ آتے ہوں گے؟ اور حضور  سے عرض نہ کرتے ہوں گے کہ ’’یا رسول اللہ! آپ  کی نام لیوا ایک بوڑھی خاتون کو اس طرح ستایا جا رہا ہے اور بے عزت کیا جا رہا ہے، تو کیا ہم بے غیرت ہیں، کیا ہم میں مردانگی کا جوہر نہیں ہے ؟ ہمیں ا س بربریت (۱کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے‘‘. لیکن اس وقت حکم یہی تھاکہ نہیں، کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ، اپنے ہاتھ بندھے رکھو، ابھی اپنے اس جوش و جذبہ کو تھام رکھو. جلد ہی وقت آئے گا تب اپنا یہ جوش نکال لینا. کیونکہ انقلابی عمل کے اعتبار سے حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جوش کو تھامو اور روکو. صبر کرو اور جھیلو. مدافعت میں ہاتھ مت اُٹھاؤ . چنانچہ حضور  جب حضرت یاسرؓ کے خاندان کے پاس سے گزرتے تو انہیں صبر کی تلقین فرماتے اِصْبِرُوا یَا آلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ’’اے یاسر ؓ کے گھر والو، صبر کرو! اس لئے کہ تمہارے وعدہ کی جگہ جنت ہے‘‘.

یہ ابتدائی دور قریباً ساڑھے بارہ برس جاری رہا. درحقیقت یہ دور انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کا ناگزیر بنیادی لازمہ 
(Prerequisite) ہے. ا سی میں انقلابی نظریہ و فکر کی دعوت و تبلیغ بھی ہو رہی ہے، دعوت قبول کرنے والوں کی تنظیم بھی ہو رہی ہے اور اسی میں اہل ایمان کے تزکیہ اور تربیت کے مراحل بھی طے پا رہے ہیں. اس کے دو پہلو ہیں. یعنی ایک طرف ان کے روحانی تزکیہ اور تَرَفُّع کا پروگرام بھی چل رہا ہے اور دوسری طرف ان کو ماریں کھانے اور مصائب جھیلنے کا خوگر بنایا جا رہا ہے اور پھر یہ کہ ان کو ڈسپلن کی پابندی کا عادی بنایا جا رہا ہے. (۲جس سے ان کی قوّتِ برداشت اور قوّتِ ارادی کو چٹان کی (۱) وحشت (۲) غور کیجئے کہ اِس سے بڑی ڈسپلن کی پابندی اور کیا ہو سکتی ہے کہ چاہے تمہارے(باقی اگلے صفحہ پر) مانند مضبوطی حاصل ہو رہی ہے. گویا تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت و کردار کے دونوں کام ساتھ ساتھ چل رہے ہیں. بلاشبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین(معاذ اللہ) بزدل نہیں تھے کہ خاموشی سے ماریں کھاتے رہے اور ظلم و ستم اور عقوبت و تعذیب جھیلتے رہے. بلکہ یہ اس لئے تھا کہ انہیں رسول اللہ  کا حکم تھاکہ ہاتھ نہ اُٹھائیں. علامہ اقبال کا یہ شعر صحابہ کرام ؓ کے طرزِ عمل کا عکاس ہے کہ ؎

بمصطفیٰ  برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است

’’اپنے آپ کو محمد مصطفی  کے قدموں تک پہنچاؤ ، اس لئے کہ دین تو نام ہی آنحضور  کا ہے. اگر وہاں تک رسائی نہ ہوئی تو اس کے باہر بولہبی یعنی کفر، زندقہ اور ضلالت ہی ضلالت ہے‘‘.

یہ قرآن جس پر ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، ہمیں محمد مصطفی  ہی سے ملا ہے. یہ مجھ پر یا کسی اور پر تو نازل نہیں ہوا. حتیٰ کہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہم وارضاہم) پر بھی نازل نہیں ہوا. رسول اللہ  پر قرآن بھی نازل ہوا اور نہ معلوم اللہ تعالیٰ نے آپ  پر مزید کیا نازل فرمایا! حضور  کا ارشاد ہے 
اُوْتِیْتُ الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ (۱’’مجھے قرآن بھی ملا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی مثل اور بھی ملا ہے‘‘. اللہ تعالیٰ نے آپ  کو حکمت دی ہے، بصیرت دی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ  کو بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی ہے.پھر وحی خفی ہے. بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ بذریعہ الہام حضور  کو پہنچا رہا ہے. کبھی خواب کے ذریعے سے رہنمائی دی جا رہی ہے، کبھی کشف ہو رہا ہے. یہ سب چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کا ایک حصہ ہیں جو اس (تعالیٰ) نے اپنے نبی کریم  کی فرمائی.

تشدّد کے جواب میں ہاتھ نہ اُٹھانے اور صبر کرنے کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک 
(گزشتہ صفحہ سے) ساتھ یا تمہاریکسی رفیق کے ساتھ یا خود داعی اوّل رسول اللہ کے ساتھ تشدد کا کتنا ہی ہولناک اور قابل برداشت معاملہ کیا جائے، ظلم وستم کے کتنے ہی پہاڑ توڑے جائیں تم ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے. اِس طرح گویا اِن کی سمع وطاعت کی تربیت بھی ہو رہی ہے. (مرتب) 

(۱) رواہ ابوداؤد فی السنن فی کتاب السنۃ والاطعمہ حکمت یہ بھی ہے کہ لوگ سمع و طاعت کے خوگر ہو رہے ہیں. اس کے ساتھ ہی ایک حکم اور بھی ہے کہ پیچھے نہیں ہٹنا! اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ہے! یہ نہ ہو کہ اس تشدد سے گھبرا کر اپنے انقلابی نظریہ کو خیرباد کہہ دو اور اس سے کنارا کش ہو جاؤ. نہیں! ڈٹے رہنا ہے اور کھڑے رہنا ہے. جان جاتی ہے تو جائے! یہ ہے اس تصادم کا پہلا مرحلہ… ’’صبر محض‘‘ یا (Passive Resistance)