گاندھی نے ۲۱۱۹۲۰ء میں عدم تشدد کی بنیاد پر ترکِ موالات کی جو تحریک، تحریکِ خلافت کے ساتھ مل کر چلائی تھی تو اس کے دوران پورے ہندوستان میں صرف ایک جگہ عدمِ تشدد کے اصول کی خلاف ورزی ہوئی. صوبہ بہار کا ’’چورا چوری‘‘ نامی ایک قصبہ تھا. یہاں پر پولیس والوں نے کچھ شرارت کی، جس سے جلوس میں شامل بعض لوگ مشتعل ہو گئے اور انہوں نے تھانے پر حملہ کیا، بہت سے سپاہیوں کو مار دیا اور تھانہ میں آگ لگا دی، ۱) حاجی عبدالواحدؒ کے تفصیلی تعارف کے لئے ’’تنظیم اسلامی اور جماعت شیخ الہند‘‘ کے آخری باب کے مضمون ’’حاجی عبدالواحدؒ کا انتقال‘‘ سے رجوع کریں. جس میں کچھ پولیس والے زندہ جل کر مر گئے. اب آپ دیکھئے کہ گاندھی نے صرف اس ایک حادثہ پر پوری تحریک ختم (call off) کر دی. اُس وقت گاندھی کی زندگی میں بڑا نازک مرحلہ آیا تھا. پورے ہندوستان میں اس کے خلاف جذبات مشتعل ہو گئے کہ یہ کیسا لیڈر ہے کہ اس نے تحریک ختم کر دی.

ایسے موقع پر تو عموماً لوگ لیڈر کو گالیاں دیتے ہیں. لیکن گاندھی نے اپنی لیڈری کی موت کا خطرہ مول لیا اور صرف یہ کہا کہ اگر تم میرے حکم پر نہیں چل سکتے تو میں تمہاری رہنمائی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا. میرا حکم یہ تھا کہ تمہیں ہاتھ نہیں اُٹھانا، تشدد نہیں کرنا، لیکن تم تشدد کر رہے ہو تو گویا تم میرا حکم ماننے کو تیار نہیں ہو. میں اس تحریک کی رہنمائی کی ذمہ داری کیسے قبول کر لوں کہ جس کے بارے میں مجھے یہ اعتماد نہ ہو کہ اس تحریک میں حصہ لینے والے میری بات کو مانیں گے. گاندھی کی بات بڑی معقول تھی. گاندھی کا ذکر اگر میں کرتا ہوں تو اس اعتبار سے نہیں کہ معاذ اللہ وہ میرے لئے کوئی حجت یا کوئی دلیل ہے یا رہنمائی کے لئے کوئی مثال ہے. میرا یہ دعویٰ ہے کہ گاندھی نے یہ اصول سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے سیکھا ہے. اس کے شواہد موجود ہیں کہ گاندھی نے اسلام کا بغور مطالعہ کیا تھا… اس کے لئے میں دو مثالیں پیش کر دیتا ہوں.