سیرتِ مطہرہ میں راست اِقدام بالفاظ دیگر نظامِ باطل کو چیلنج کرنے کا جو مرحلہ آیا ہے اس کا تعلق ہجرت کے متصلاً بعد کے زمانے سے ہے. یعنی جیسے ہی ہجرت ہوئی اور حضور ﷺ مکہ کو خیرباد فرما کر عازم مدینہ ہوئے اسی لمحے یہ مرحلہ شروع ہو گیا. اس مرحلہ کے لیے قرآن مجید میں متعلقہ آیات سورۃ الحج کی ہیں. آیت ۳۹ میں فرمایا اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے قتال کااِذن عام تھا. اب تک انہیں حکم تھا کہ ہاتھ بندھے رکھیں، لیکن اب ان کے ہاتھ کھول دیئے گئے کہ اب انہیں بھی جنگ کی اجازت ہے. یہ آیات اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں. سفر میں کم ازکم بیس دن لگے ہیں اور ۱۲ ربیع الاوّل ۱ھ کو حضور ﷺ کا مدینہ منورہ میں ورودِ مسعود ہوا ہے. اس اعتبار سے ۱۲ ربیع الاوّل کی تاریخ بڑی اہمیت کی حامل ہے. یہی حضور ﷺ کی تاریخ وفات ہے.
اب سورۃ الحج کی آیت ۴۱ ملاحظہ ہو:
اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں تمکن و اقتدار عطا فرمائیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے. اور تمام معاملات کا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے‘‘.
اس آیت سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مدینہ منورہ میں نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو تمکن فی الارض عطا کیا جانے والا تھا اور اس میں جو توسیع ہونے والی تھی اس کے پیش نظر یہ آیت گویا حزب اللہ اور اسلامی انقلاب کے منشور (Manifesto) کی حیثیت رکھتی ہے. جیسے آج کل کوئی سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لیتی ہے تو اپنا ایک منشور شائع کرتی ہے کہ اگر ہمیں اقتدار حاصل ہو جائے گا تو ہم کیا کریں گے اور ہمارا رویہ کیا ہو گا. یہاں یہ Divine Manifesto نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کو دیا جا رہا ہے کہ اے محمد( ﷺ ) آپ مدینہ تشریف لے جا رہے ہیں، جہاں آپ ﷺ کا داخلہ ایک بے تاج بادشاہ کی حیثیت سے ہو گا. تو آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کے لیے یہ منشور ہے جسے وہاں رُوبعمل لایا جائے گا.
نبی اکرم ﷺ کا مدینہ منورہ میں ۱۲ ربیع الاوّل ۱ھ کو ورودِ مسعود (۱) ہوا چھ مہینے تک تو حضور ﷺ نے نہ کوئی جوابی کارروائی فرمائی نہ مکہ کی طرف کوئی اِقدام کیا. بلکہ اللہ تعالیٰ نے حالات ایسے بنا دیئے تھے کہ حضور ﷺ کو خود مدینہ آنے کی دعوت ملی تھی. یہاں آ کر آپ ﷺ کو دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں زیادہ وقت لگانے کی ضرورت نہیں تھی. مدینہ میں اوس و خزرج کے دو بڑے قبیلے آباد تھے. دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار اور رؤساء رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا چکے تھے اور ان میں سے اکثریت بیعت ِ عقبہ ثانیہ کے وقت موجود تھی اور حضور ﷺ کے دستِ مبارک پر دو سال قبل بیعت کر چکی تھی. لہذا آپ ﷺ نے استحکام کیلئے چھ ماہ صرف فرمائے ہیں اور اس عرصہ میں کئے جانے والے تین اِقدامات بہت اہم ہیں. (۱) مبارک آمد