اس خبر کے بعد کہ ابو سفیان کا قافلہ خیر وعافیت سے مکہ پہنچ گیا ہے، عتبہ بن ربیعہ نے حکیم بن حزام کی تجویز پر یہ کوشش کی تھی کہ جنگ ٹل جائے، اس پر ابوجہل نے اسے طعنہ دیا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے کو مدِّ مقابل دیکھ کر تمہاری ہمت جواب دے رہی ہے اور محبتِ پدری سے مغلوب ہو کر تم یہ تجویز لے کر آئے ہو کہ جنگ نہ ہو. یہ ایسا طعنہ تھا جو عتبہ کو گھائل کر گیا اور اس طرح صلح جُو لوگوں (Doves) کی جانب سے جنگ کو ٹالنے کی کوشش ناکام ہو گئی. چنانچہ اگلی صبح جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو سب سے پہلے عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور اپنے بیٹے ولید کو لے کر نکلا او رمبارزت طلب کی. اہل ایمان کے لشکر سے تین انصاری صحابیؓ مقابلہ کے لیے نکلے. عتبہ نے چیخ کر پوچھا مَن اَنْـتُمْ؟ (۱) مَنِ الْقَوْمُ؟ (۲) انہوں نے اپنے نام بتائے. عتبہ نے کہا کہ تم ہمارے برابر کے نہیں ہو، ہم تم سے لڑنے نہیں آئے. پھر چیخ کر پکارا: محمد(ﷺ ) ہماری توہین نہ کرو، ہم ان کاشت کاروں سے لڑنے کے لیے نہیں آئے ہیں. ہمارے مقابلے کے لیے انہیں بھیجو جو ہمارے برابر کے ہیں، جو ہمارے مد مقابل ہیں.
ایک روایت میں آتا ہے کہ اس موقع پر باپ کے مقابلہ میں بیٹا یعنی عتبہ کے مقابلے میں حضرت ابوحذیفہؓ نے نکلنا چاہا، لیکن نبی اکرمﷺ نے انہیں روک دیا. پھر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب، تین صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین مقابلہ کے لیے نکلے. حضرت حمزہؓ نے عتبہ کو اور حضرت علیؓ نے شیبہ کو جلد ہی واصل جہنم کر دیا، لیکن حضرت عبیدہؓ کا ولید بن عتبہ سے شدید مقابلہ ہوا. دونوں کا بیک وقت ایک دوسرے پر کاری وار ہوا. حضرت عبیدہؓ کی ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ گر پڑے تو حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ آگے بڑھے، ولید کو ختم کیا اور حضرت عبیدہؓ کو جو جان بلب تھے، اُٹھاکر لے آئے. انہوںؓ نے کہا مجھے نبی اکرمﷺ کے قدموں میں لے چلو. وہاں پہنچ کر انہوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ میرے متعلق فرمایئے. حضورﷺ نے فرمایا ’’تمہیں یقینا جنت ملے گی‘‘ تو ان کے چہرہ پر بشاشت آئی اور ان کی زبان سے نکلا کاش! آج ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ دیکھتے کہ میں نے ان کی بات سچ کر دکھائی ہے کہ اپنی جان حضورﷺ پر نچھاور کر دی ہے. بات یہ تھی کہ جب مشرکین مکہ کا جناب ابو طالب پر شدید دباؤ پڑھتا تھا کہ تم اور بنو ہاشم محمد(ﷺ ) کی (۱) تم کون ہو؟ (۲) کس قوم سے ہو؟ حمایت سے دست کش ہو جاؤ تاکہ ہم ان سے نمٹ لیں یعنی (نعوذ باللہ) آپ ﷺ کو قتل کر دیں تو عام طور پر جناب ابو طالب اُس وقت ایک شعر پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’’تم محمد(ﷺ ) پر اُس وقت تک قابو نہیں پا سکو گے جب تک انﷺ کی حفاظت میں ہمارا بچہ بچہ کٹ نہ مرے گا‘‘.
حضرت عبیدہؓ کا انتقال میدانِ بدر میں نہیں ہوا بلکہ فتح کے بعد جب اسلامی لشکر مدینہ منورہ واپس جا رہا تھا تو راستہ میں ان کا انتقال ہو گیا. چنانچہ ان کی قبر میدانِ بدر سے آگے مدینہ منورہ کے راستے میں ہے.
بہرحال ۱۷؍رمضان المبارک ۲ھ میں میدانِ بدر میں باقاعدہ اور دُو بدو جنگ کی صورت میں اندرونِ عرب انقلابِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے چھٹے اور آخری مرحلہ یعنی مسلح تصادم (Armed Conflict) کا آغاز ہو گیا. اس غزوہ میں قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے ابو سفیان اور ابولہب کے علاوہ باقی قریباً تمام ہی کھیت رہے. واضح رہے کہ ابوسفیان چونکہ تجارتی قافلے کے ہمراہ تھے، لہذا وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے. اسی طرح ابولہب بھی جنگ میں شریک نہیں تھا اور اُس نے اپنی جگہ کرائے کا فوجی بھیج دیا تھا. قریش کے کل ستر سربرآوردہ لوگ مقتول ہوئے. ابوجہل مارا گیا. عتبہ بن ربیعہ، اس کا بھائی اور بیٹا قتل ہوئے. اسی طرح نضر بن حارث، اُمیہ بن خلف، عتبہ بن اُبی معیط جیسے مشرکین جو نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے خون کے پیاسے تھے، گاجر مولی طرح کاٹ کر رکھ دیئے گئے.