کفار مشرکین کی ہمہ جہت یلغار اور کمزور ایمان والوں اور منافقین کے خوف و بے اطمینانی کا نقشہ سورۃ الاحزاب میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ’’یاد کرو جب لشکر آ گئے تھے تم پر تمہارے اوپر سے بھی اور تمہارے نیچے سے بھی‘‘ ___ چونکہ مدینہ سے مشرق کی طرف اونچائی ہوتی چلی جاتی ہے، اسی لیے اس علاقہ کو نجد کہتے ہیں، جس کے معنی میں اونچائی والا علاقہ. لہذا جو مشرق سے آئے ان کے لیے ’’ مِنۡ فَوۡقِکُمۡ‘‘ کے الفاظ آئے ___ اور مغربی ساحل کی طرف ڈھلان اور اترائی ہے. چنانچہ قریش اور ان کے حلیف مغرب یعنی نیچائی اور اُتار کے راستہ سے آئے. لہذا ان کے لیے ’’ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ ‘‘ فرمایا گیا. مزید برآں مدینہ کے شمال مغرب کی جانب سے یہودی قبائل جمع ہو کر آ گئے تھے ___ اس کٹھن موقع پر منافقین اور کمزور ایمان والوں کی کیفیت اسی آیت میں آگے ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا ﴿۱۰﴾ ’’اوریاد کرو جب آنکھیں (وحشت و حیرت سے) پھرنے لگیں اور (خوف و ہراس سے) دلوں کا یہ حال تھا کہ وہ گویا گلوں میں آ اٹکے ہیں اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے‘‘ ___ یہ تبصرہ ہے اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے اس امتحان پر جو غزوۂ احزاب کی صورت میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا تھا ___ راقم کی رائے ہے کہ ذاتی طور پر نبی اکرم ﷺ پر سب سے سخت دن ’’یومِ طائف‘‘ گزرا ہے اور مسلمانوں پر بحیثیت جماعت سب سے سخت اور شدید ایام غزوۂ احزاب کے گزرے ہیں.
غزوۂ اُحد کے موقع پر تین سو افراد تو بطورِ منافقین منظر عام پر آ چکے تھے. اب غزوۂ احزاب تک ان کی تعداد کتنی ہوگی، واللہ اعلم . بہرحال قرآن مجید سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ان کی معتدبہ تعداد موجود تھی. ان کے دل ہمارے محاورہ کے مطابق بَلیوں (۱) اچھل رہے تھے اور ان کو ہر چہار طرف موت نظر آ رہی تھی. اور بظاہر احوال بچنے کی کوئی شکل سامنے نہیں تھی.
میں جب بھی غزوۂ احزاب کا ذکر کرتا ہوں تو جناب نعیم صدیقی کا یہ شعر بے ساختہ یاد آ جاتا ہے ؎
اے آندھیو سنبھل کے چلو اس دیار میں
اُمّید کے چراغ جلائے ہوئے ہیں ہم!
ہدایت کا ایک چراغ تھا جو مدینہ میں روشن تھا اور اس کو بجھانے کے لیے اتنی بڑی بڑی آندھیاں آ رہی تھیں کہ الامان والحفیظ!