انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ رسول اللہ  کو یہ بیعت لینے کی ضرورت کیا تھی! حضور کے ساتھ جو چودہ یا پندرہ سو افراد آئے تھے ان میں سے کوئی بھی اس بیعت میں پیچھے نہیں رہا. صرف ایک شخص جد بن قیس کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اپنے اونٹ کے پیچھے چھپ کر بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے. اس نے بیعت نہیں کی. اس کے سوا بقیہ تمام لوگوں نے بیعت کی. یہ شخص درحقیقت منافق تھا اور اس کا ذکر سفر تبوک کے ضمن میں بھی آتا ہے کہ اس موقع پر اس کا نفاق بالکل کھل کر سامنے آ گیا تھا. حضور کے ساتھ جو اشخاص آئے تھے ان میں جد بن قیس جیسا کوئی دوسرا شخص شاید ہی ہو. اگر حضور جنگ کا فیصلہ فرما دیتے تو یقینًا ان مومنین صادقین میں سے کوئی شخص بھی کسی صورت میں پیٹھ دکھانے والا نہیں تھا. لیکن اس کے باوجود حضور بیعت لے رہے ہیں تو اس میں کیا حکمت تھی؟

درحقیقت یہ اس لئے لی گئی کہ بیعت کا یہ اصول اور یہ عمل بعد میں آنے والوں کی رہنمائی کے لئے سیرتِ مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بحیثیت سنت ہمیشہ ہمیش کے لئے ثبت ہو جائے. بیعت رضوان اس بات کی روشن دلیل ہے کہ کسی موقع پر یا کسی اعلیٰ مقصد کے لئے، جیسے ہجرت و جہاد، بیعت لینا سنت ثابتہ ہے. ورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں کوئی شخص بھی ایسا نہ ہو سکتا تھا کہ نبی اکرم بیعت لئے بغیر خون عثمان ؓ کے قصاص کے لئے جنگ کا حکم دیتے تو اس سے اعراض کرتا. پھر یہی نہیں بلکہ مختلف مواقع پر انہی مخلص و صادق صحابہ کرامؓ سے مختلف امور کے لئے حضور کا بیعت لینا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے. چنانچہ انہی احادیث سے یہ اصول مُسْتَنْبَط (۱(۱) اخذ کیا گیا ہوتا ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ ، اقامت دین، اظہارِ دین الحق علی الدین کلہ اور تکبیر رب یعنی انقلابِ محمد ی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) کی جدوجہد کے لئے جو ہیئت اجتماعیہ وجود میں آئے وہ بیعت ہی کے اصول پر قائم ہو. یہی سنت کا تقاضا ہے.