صلح نامہ کی تحریر. شرائط اور چند اہم واقعات

قریش کو بیعت رضوان کی خبر پہنچ چکی تھی جس پر ان میں کافی سراسیمگی (۲پھیل گئی تھی. اسی لئے انہوں نے سہیل بن عمرو کو اپنی طرف سے نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ ایسی شرائط پر مصالحت کر لیں جو قریش کے لئے آبرومندانہ ہوں، سبکی کا باعث نہ ہوں. وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مصالحت کا عندیہ ظاہر کیا. گفت و شنید کے بعد (۱) فتح مکہ کے بعد یہ سہیل بن عمرو بھی ایمان لے آئے اور حضور کے صحابی ہونے کے شرف سے مشرف ہوئے. نبی اکرم کی وفات کے فوراً بعد ارتداد کا جو فتنہ اُٹھا‘اس کے اثرات مکہ تک بھی پہنچے لیکن سہیل بن عمروؓ نہ صرف خود ثابت قدم اور اسلام پر قائم رہے بلکہ آپ چونکہ نہایت شعلہ بیان خطیب بھی تھے، لہذا انہوں نے اپنے مؤثر و مدلل خطبات کے ذریعہ مکہ والوں کو اس فتنہ ارتداد سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا.

(۲) پریشانی جب طے ہوا کہ صلح نامہ تحریر کر لیا جائے تو نبی اکرم نے صلح نامہ تحریر (dictate) کرانا شروع کیا. حضرت علیؓ کاتب کے فرائض انجام دے رہے تھے. حضور نے فرمایا ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سہیل بن عمرو نے فوراً ٹوک دیا کہ نہیں! ہم ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے واقف نہیں ہیں، ہم تو ہمیشہ سے ’’بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ‘‘ استعمال کرتے رہے ہیں لہذا یہی الفاظ لکھے جائیں گے، ہم آپ کے الفاظ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں حضور نے فرمایا ’’ٹھیک ہے، لکھ دو بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ کوئی فرق واقع نہیں ہوتا‘‘. اس کے بعد حضور نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ لکھو کہ ’’یہ وہ صلح ہے جو محمد رسول اللہ  اور قریش کے مابین منعقد ہوئی‘‘. سہیل بن عمرو نے فوراً دوسرا اعتراض جڑ دیا کہ ’’محمد رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ نہیں لکھے جا سکتے. اس لئے کہ اسی بناء پر تو ہمارا سارا تنازعہ ہے. ظاہر ہے کہ صلح نامہ کے نیچے فریقین کے دستخط ہوں گے تو یہ پوری عبارت گویا دونوں کے مابین متفق علیہ ہوگی، اور اس میں اگرآپ کا نام رسول اللہ لکھا ہوا ہے تو گویا ہم نے آپ کو رسول اللہ مان لیا. پھر تو ہمارے اور آپ کے مابین کوئی جھگڑا اور کوئی تنازعہ ہی باقی نہ رہا. پھر صلح کا کیاسوال!پس آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ نہیں لکھا جائے گا‘‘. سہیل بن عمرو کا یہ اعتراض قانونی اعتبار سے درست (valid) تھا. اس سے اندازہ ہوتا ہے وہ کتنے ذہین اور مدبر شخص تھے نبی اکرم نے اس اعتراض پر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم مانو یا نہ مانو، میں اللہ کا رسول ہوں.