یہ وہ لمحات ہیں جن کے متعلق ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے جذبات کا کیا عالم ہوگا! یہ وہ وقت ہے کہ دینی حمیت و غیرت کے باعث حضرت عمرؓ کا اضطراب اتنا بڑھا کہ ان کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کرحضورﷺ سے وہ مکالمہ کیا جو سیرت کی تمام مستند کتابوں میں مذکور ہے. دنیا جانتی ہے کہ حضرت عمرؓ کو قدرت کی طرف سے جلالی طبیعت ودیعت ہوئی تھی. اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد آپؓ کی اس کیفیت میں کافی اعتدال آ گیا تھا لیکن کبھی کبھار دین کی حمیت کے باعث اس جلالی طبیعت کا غلبہ ہو جاتا تھا. دراصل یہی سبب تھا کہ انہوں نے ذرا تیکھے انداز میں نبی اکرم ﷺ سے اس موقع پر گفتگو کی، جس کا انؓ کو ساری عمر تاسف (۳) رہا ہے اور انہوںؓ نے اپنے اس انداز گفتگو کے کفارہ کے طور پر نہ معلوم کتنی نفلی عبادات کی تھیں. (۱)ناراض ہونا (۲) خاموش (۳) افسوس حضرت عمرؓ نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا ’’حضورﷺ کیاآپﷺ حق پر نہیں ہیں اور کیاآپﷺ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟‘‘ نبی اکرمﷺ نے مسکراتے ہوئے جواب میں ارشاد فرمایا ’’یقینًا میں حق پر ہوں اور میں اللہ کا نبی ہوں‘‘. پھر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ ’’حضورﷺ ! پھر ہم اس طرح کا معاملہ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اللہ ہمارے ساتھ نہیں ہے؟؟‘‘حضورﷺ نے پھر مسکراتے ہوئے ہوئے فرمایا ’’اللہ میرے ساتھ ہے اور میں اس کا نبی ہوں اور میں وہی کچھ کر رہا ہوں جس کا مجھے حکم ہے‘‘. نبی اکرمﷺکا تبسم کے ساتھ جوابات کا انداز بتا رہا ہے کہ حضرت عمرؓ کے اس انداز تخاطب سے آپﷺ قطعًا ناراض نہیں ہوئے تھے.