ایک مخصوص گروہ کی ا تِّہام طرازی (۱) اور اس کا ازالہ

حضرت عمرؓ کو اپنے اس رویہ پر جو بظاہر گستاخانہ معلوم ہوتا ہے ساری عمر پشیمانی (۱) تہمت لگانا اور تَأسُّف رہا اور آپؓ کفارہ کے طور پر ساری عمر متعدد نفلی عبادات کا اہتمام کرتے رہے، لیکن ایک خاص گروہ اس واقعہ کو لے اڑا ہے اور اس کی بناء پر حضرت عمرؓ کو متہم کرتا اورسب و شتم (۱کا نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے کہ وہ (معاذ اللہ ) بڑے گستاخ تھے. اس خاص گروہ کی طرف سے حضرت عمرؓکی شان میں گستاخیاں کرنے اور انہیں متہم کرنے کے لئے اس واقعہ کو بھی نمک مرچ لگا کر خوب اچھالا جاتا ہے. مگر وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر اس معنی و مفہوم میں یہ بات لی جائے گی تو گویا بات حضرت عمرؓ کی ذات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی زد میں حضرت علیؓ کی ذات گرامی بھی آ جائے گی کہ انہوں نے بھی اس موقع پر نبی اکرم کے حکم سے سرتابی کی. حالانکہ دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ’’الامرفوق الادب‘‘ یعنی حکم ادب سے بالاتر ہے. جب حکم دیا جا رہا ہو تو ادب و تعظیم کا معاملہ پیچھے رہ جائے گا، حکم پر بہرصورت عمل کیا جائے گا لیکن معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ نہ حضرت علیؓ کی نیت میں کوئی خلل تھا اور نہ ہی حضرت عمرؓ کی نیت میں کوئی فتور. ان دونوں جلیل القدر اصحابِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے دلوں میں نہ بغاوت و سرتابی کے جراثیم تھے اور نہ ہی گستاخی کا کوئی ارادہ تھا، بلکہ درحقیقت یہ حمیت حق تھی جس کی وجہ سے حضور کے اس فرمان پر کہ ’’رسول اللہ ‘‘ کا لفظ صلح نامہ سے مٹا دو حضرت علیؓ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہو گئے کہ ’’میں تو یہ کام کرنے والا نہیں ہوں‘‘. اور اسی حمیت حق کے سبب سے حضرت عمرؓ نے ایسا انداز گفتگو اختیار کیا. ان دونوں حضرات کرامؓ کے اس طرز عمل پر نبی اکرمنے نہ کوئی سرزنش فرمائی نہ ہی اظہارِ ناراضگی و ناپسندیدگی فرمایا، بلکہ حضرت علیؓ سے فرمایا کہ مجھے بتاؤ کہ ’’رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ کہاںمرقوم ہیں، اور پھر اپنے دست مبارک سے اسے مٹا دیا. پہلے ذکر ہو چکا کہ حضرت عمرؓ کے تیکھے انداز میں کئے گئے تمام سوالات کے جوابات نبی اکرم نے تبسم کے ساتھ ارشاد فرمائے. یہ تمام باتیں اس امر کی علامت ہیں کہ نبی ان حضرات گرامیؓ کے جذبات کی صحیح نوعیت سے بخوبی آگاہ تھے. (۱) لعن طعن