اس اہم واقعہ کو قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا اور حدیبیہ سے واپسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (الفتح) ’’بیشک ہم نے (اے محمد ) آپ کے لئے تابناک اور کھلی فتح کا فیصلہ فرمایا‘‘. صلح حدیبیہ کو رسول اللہ  کی انقلابی جدوجہد کے ضمن میں ایک نہایت اہم موڑ (turning point) کی حیثیت حاصل ہے. درحقیقت اس صلح اور معاہدہ کا مطلب یہ تھا کہ قریش نے نبی اکرم کو ایک ’’طاقت‘‘ کی حیثیت سے تسلیم (recognize) کر لیا. سیاسیات اور بین الاقوامی معاملات میں دراصل یہی بات فیصلہ کن ہوتی ہے کہ اگر کسی فریق کی قانونی و آئینی حیثیت تسلیم کر لی جائے تو اس کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے. کیونکہ اس فریق کو بہت سے حقوق و تحفظات حاصل ہو جاتے ہیں. لہذا قریش کی طرف سے مصالحت پر آمادہ ہو جانے اور ایک باضابطہ تحریری شکل میں نبی اکرم کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ گویا قریش نے یہ تسلیم کر لیا کہ محمد عرب کی ایک سیاسی اور عسکری طاقت ہیں جن سے انہوں نے صلح کا معاہدہ کیا ہے. یعنی قریش کو تسلیم کرنا پڑا کہ محمد  اب ایک ایسی طاقت ہیں جنہیں تسلیم کئے بغیر اب کوئی چارۂ کار نہیں. اس صورت حال کے پس منظر میں مدینہ منورہ کی واپسی کے سفر کے دوران سورۃ الفتح کی درج ذیل آیات نازل ہوئیں:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ
’’بے شک جو لوگ (اے محمد )آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ (درحقیقت) اللہ سے بیعت کرتے ہیں. اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھ کے اوپر ‘‘

اور
لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ 

’’ (اے نبی )تحقیق اللہ راضی ہو گیا ایمان والوں سے جب وہ بیعت کرنے لگے آپ سے درخت کے نیچے‘‘

اور

لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ 
’’بے شک اللہ نے سچ کر دکھایا اپنے رسول کو خواب حق کے ساتھ. تم لازمًا داخل ہو کر رہو گے مسجد حرام میں اگر اللہ نے چاہا آرام سے اپنے سروں کے بال مونڈتے اور کترتے ہوئے، بے کھٹکے ‘‘

جب یہ آیات نازل ہوئیں اور اہل ایمان کے سامنے ان کی تلاوت کی گئی تو ان آیات نے گویا ان کے زخمی دلوں پر مرہم کے پھاہے کا کام کیا. اہل ایمان جس چیز کو اپنے خیال میں شکست سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کو فتح مبین قرار دیا. اس سے مسلمانوں کے دل مسرت و شادمانی سے باغ باغ ہو گئے. صحیح مسلم میں روایت موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت نے پہلے خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر ان کو بتایا کہ یہ سورت نازل ہوئی ہے. انہوں نے پہلے تو کچھ تعجب کا اظہار کیا لیکن جب حضور نے فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا ہے تو ان کے دل بے قرار کو بھی قرار آ گیا اور وہ بھی شاداں و فرحاں ہو گئے.