اس صلح کے بعد نبی اکرم کو یک سُو ہو کر اپنی دعوتی سرگرمیوں پر پوری توجہ دینے کا موقع مل گیا. یہی وہ زمانہ ہے کہ اصحابِ صُفّہ کی جو جماعت تیار ہو رہی تھی حضور نے ان کے وفود بنا بنا کر مختلف قبائل کی طرف بھیجنے شروع فرمائے. مزید برآں اب تک مسلمان اور مشرکین کا آپس میں کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا. اس صلح کے بعد یہ روک ٹوک اُٹھ گئی تو آمد و رفت شروع ہوئی. خاندانی اور تجارتی تعلقات و روابط کی وجہ سے کفارِ مکہ مدینہ منورہ آتے، وہاں طویل عرصہ تک قیام کرتے. اس طرح مسلمانوں سے میل جول رہتا اور باتوں باتوں میں اسلام کی دعوت توحید اور دیگر عقائد و مسائل کا تذکرہ اور ان پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا. ہر مسلمان اخلاص اور حسن عمل کا پیکر، نیکو کاری، حسن معاملات اور پاکیزہ اخلاق کی زندہ تصویر تھا. جو مسلمان مکہ جاتے تھے، ان کی صورتیں، ان کے اعمال، ان کے اخلاق اور ان کے معاملات یہی مناظر پیش کرتے. ان اوصاف کی وجہ سے مشرکین مکہ کے دل خود بخود اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے. الغرض اس صلح کے نتیجہ میں اسلام جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگا. مؤرخین اور سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ اس صلح سے لے کر فتح مکہ تک اس کثرت سے لوگ اسلام لائے کہ اس سے قبل نہیں لائے تھے.