رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو دس ہزار صحابہ کرام ؓ کا لشکر حضورﷺ کے ہمرکاب (۲) تھا. یہ رمضان ۸ھ ہے. واقعہ ہجرت کو آٹھ برس اور مسلح تصادم (Armed Conflict) کے مرحلے کو شروع ہوئے صرف چھ سال بیتے ہیں. سیرتِ (۱) کجاوہ (۲) ہمسفر مطہرہ میں بہت سے غزوات اور سرایا کا ذکر ملتا ہے لیکن ان تمام جنگوں میں جانی نقصان مجموعی طور پر چند سو سے زیادہ نہیں ہوا. کفار کی طرف سے جو لوگ قتل ہوئے اور مسلمانوں کی طرف سے جو شہید ہوئے ان کی مجموعی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی. اگرچہ کئی بار خوں ریزی ہوئی، لیکن اموات (Casualities) کی گنتی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک غیر خونیں (Bloodless) انقلاب تھا. سب سے زیادہ خون ریزی اگر ہو سکتی تو فتح مکہ کے وقت ہوتی. اس لئے کہ جو خون کے پیاسے تھے، جو جانی دشمن تھے، وہ سب کے سب مکہ میں موجود تھے. ان میں وہ شخص بھی تھا جس کے دھوکہ سے پھینکے ہوئے برچھے سے حضرت حمزہ ؓ شہید ہوئے تھے، یعنی وحشی. ان میں وہ خاتون بھی تھی یعنی ہندہ بنت عتبہ، زوجہ ابوسفیان کہ جس نے سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ بھی کرایا تھا اور آپؓ کا کلیجہ چبانے کی کوشش بھی کی تھی. چنانچہ اُس وقت مکہ والوں کو یہ اندیشے لاحق تھے کہ اب کیا ہوگا! ان پر شدید خوف اور اضطراب طاری تھا.