دس ہزار قدسیوں اور جان نثاروں کے جلو میں جب کوکبِ نبوی نہایت عظمت و شان کے ساتھ مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر خیمہ زن ہوا تو تحقیق کے لئے قریش کی (۱) راستے میں طرف سے ابوسفیان، حکیم بن حزام (حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے) اور بدیل بن ورقہ چھپ چھپا کر اہل ایمان کے لشکر تک پہنچے. ابوسفیان کو مسلمانوں نے پہچان لیا اور گرفتار کر کے دربارِ رسالت میں پیش کیا. حضرت عمرؓ نے خیمہ میں آ کر عرض کیا کہ حضور!اللہ اور اس کے رسول کے اس دشمن کے قتل کا حکم دیجئے تاکہ کفر کے بالکلیہ اِسْتِیصال کا آغاز ہو جائے. حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ نے جان بخشی کی درخواست کی.ابوسفیان کا سابقہ کردار اور ان کی اسلام دشمنی سب کے سامنے عیاں تھی. ان کا ایک ایک فعل انہیں قتل کا مستوجب ثابت کرتا تھا. لیکن ان سب سے بالاتر ایک اور چیز تھی اور وہ تھی حضور کی رافت، رحمت اور عفو کا جوہر جو ابوسفیان کو دل ہی دل میں اطمینان دلا رہا تھا کہ خوف کا مقام نہیں ہے. نبی اکرم کے اَخلاقِ حَسَنہ سے دل پہلے سے گھائل تھا. حق کا بول بالا اور اسلام کی فتح و سربلندی نگاہوں کے سامنے تھی. حضرت عباسؓ جگری دوست تھے، ان کی ترغیب اور ان تمام چیزوں نے اس آہنی چٹان کو پگھلا دیا اور وہ بالآخر دولت اسلام سے مشرف ہوئے اور مؤمن صادق ثابت ہوئے. رضی اللہ تعالیٰ عنہ.غزوۂ طائف میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوئی جو عہد خلافت راشدہ میں جنگ یرموک (شام) کے موقع پر بالکل جاتی رہی.