اصل میں مستشرقین نے سیرت مطہرہ کے ایسے ہی معاملات کے اوپر ڈیرے جمائے ہیں اور نقب زنی کی کوششیں کی ہیں. مثلًا ٹائن بی نے، جسے فلسفۂ تاریخ کا بہت بڑا عالم تسلیم کیا جاتا ہے، اپنے ایک جملے میں اس تضاد کو اپنی دانست میں sum up کیا ہے، اور وہ جملہ یہ ہے کہ (نقل کفر کفر نباشد)
".Mohammad failed as a Prophet but succeeded as a statesman"
’’محمد(ﷺ ) ایک نبی اور پیغمبر کی حیثیت سے ناکام رہے لیکن ایک سیاست دان اور مدبر کی حیثیت سے کامیاب رہے‘‘.
اس کے نزدیک مکہ میں حضورﷺ کا جو بھی رویہ اور کردار سامنے آتا ہے وہ تو یقینًا انبیاء علیہم السلا م والا ہے، لیکن مدینہ میں آپﷺ کا جو کردار ہے، وہ تو ایک مدبر ایک سیاست دان، ایکstatesman اور ایک فوجی جرنیل کا کیریکٹر ہے. اور اس کی رائے ہے کہ کامیابی مؤخر الذکر کو ہوئی ہے، مقدم الذکر کو نہیں ہوئی.
اسی طرح مسٹر منٹگمری واٹ نے، جسے ایک مرتبہ ضیاء الحق کی حکومت نے بھی پاکستان بلایا تاکہ قومی سیرت کانفرنس میں وہ ہمیں سیرت سمجھائیں، دو جلدوں (Volumes) میں نبی اکرمﷺ کی سیرت مبارکہ لکھی ہے. لیکن اس نے دونوں جلدوں کے عنوانات علیحدہ علیحدہ رکھے ہیں. گویا اس طرح اس نے اپنے باطل نظریہ کے مطابق آنحضورﷺ کی شخصیت کے تضاد کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے. چنانچہ پہلی جلد کا عنوان ـ"Muhammad at Makka" اور دوسری جلد کا عنوان ـ "Muhammad at Madina" ہے. گویا اس کے نزدیک دو محمدہیں (ﷺ )ایک مکہ والے اور دوسرے مدینہ والے.العیاذ باللّٰہ!