لیکن دو سال کے بعد حالات کافی بدل گئے. اب نبی اکرم کی انقلابی جدوجہد کی کامیابی کے لئے فضا تیار ہو چکی تھی. حضور کا دست مبارک حالات کی نبض پر مستقل طور پر رہا ہے. آپ کو اب بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس وقت مکہ والوں میں کوئی دم خم موجود نہیں اور اب کسی خونریز مقابلہ کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے. اب قریش میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ مقابلہ میں آ سکیں.

اس کے برعکس ان دو برسوں کے اندر دعوت و تبلیغ کے نتیجہ میں اب مسلمانوں کی قوت اس قابل ہو گئی تھی کہ فیصلہ کن اقدام کیا جا سکتا تھا.پھر صلح ختم کرنے کی کوئی اخلاقی ذمہ داری مسلمانوں پر کسی طرح بھی عائد نہیں ہوتی تھی. اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا فرما دیئے تھے کہ قریش کے ایک حلیف قبیلہ نے مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلہ پر حملہ کیا اور ان کو قتل کیا، حتیٰ کہ حرمِ محترم میں بھی ان کو امان نہیں ملی، وہاں بھی ان کا خون بہایا گیا. اور اس خونریز معرکہ میں قریش نے بھی بھیس بدل کر اپنے حلیف قبیلہ کا پورا پورا ساتھ دیا. صلح حدیبیہ کی ایک شرط کی اس خلاف ورزی کے باوجود نبی اکرم نے نہایت منصفانہ اور 
عادلانہ شرائط پیش فرمائیں کہ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے اور ان کے مالی نقصان کی تلافی کی جائے یا یہ کہ قریش بنو بکر کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں تاکہ بنی خزاعہ اور مسلمان بنوبکر قبیلہ سے خود ہی نمٹ لیں.

ان دونوں شرائط میں سے کوئی بھی منظور نہ ہو تو اعلان کر دیا جائے کہ آج سے صلح حدیبیہ ختم. قریش کے جوشیلے لوگوں نے جواب میں صاف صاف اعلان کر دیا کہ ہمیں تیسری بات منظور ہے. یعنی آج سے صلح حدیبیہ ختم. اس موقع پر ابوسفیان بھی خاموش رہے اورقریش کے دوسرے جہاں دیدہ اور زیرک سردار بھی. یہ تو ابوسفیان کا بعد کے غور و فکر کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ صلح حدیبیہ کو توڑنے کا اعلان کر کے ہم سے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب ہوا ہے. اسی لئے وہ دوڑے دوڑے مدینہ پہنچے اور انہوں نے تجدید صلح کی کوششیں کیں جن میں ان کو ناکامی ہوئی. اس موقع پر اگر نبی اکرم ابوسفیان کی پیش کش پر صلح کی تجدید فرما لیتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ کفر اور شرک کو بلاضرورت اور خواہ مخواہ عرب کے مرکز مکہ مکرمہ اور حرمِ محترم پر قابض رہنے کے لئے مزید مہلت دی جاتی، جسے آج کل کی اصطلاح میں Fresh Release of Existance کہا جاتا ہے . اب اس کی قطعی ضرورت تھی نہ حاجت. مشیت الٰہی نے قریش کی عقلوں پر پردے ڈال دیئے تھے اور انہوں نے خود ہی صلح حدیبیہ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا تھا. اس طرح اس بشارت کے عملی ظہور کا وقت آ گیا تھا جو ہجرت سے متصلًا قبل سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ مبارکہ دی تھی:

وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱

’’اور (اے نبی ) کہہ دیجئے:اے رب میرے! (جہاں بھی تو مجھے داخل کرے تو) مجھ کو داخل کر سچا داخل کرنا اور (جہاں سے بھی تو مجھے نکالے تو) نکال مجھ کو سچا نکالنا اور مجھ کو عطا کر دے اپنے پاس سے حکومت کی مدد. اور (اے نبی ) کہہ دیجئے کہ حق آ گیا اور باطل نکل بھاگا. بے شک باطل ہے ہی بھاگ جانے اور مٹ جانے والا‘‘.