ہوازن اور ثقیف کے قبائل کے جوش کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے تاکہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کی فوجیں بڑی پامردی سے لڑیں، جانیں دے دیں لیکن کسی صورت میں بھی پسپائی اختیار نہ کریں. انہوں نے فوج کی ترتیب اس طرح کی کہ اپنے بہت سے تیر انداز دستوں کو پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر تعینات کیا اور بقیہ فوج نے دُوبدو جنگ کے لئے پہلے سے پہنچ کر میدان میں موزوں اورمناسب مقامات پر صف آرائی کر لی. اس موقع پر بعض مسلمانوں کی زبان سے اپنی کثرت کے زعم میں یہ الفاظ نکل گئے کہ ’’ آج مسلمانوں پر کون غالب آ سکتا ہے!‘‘

جب مسلمان تین سو تیرہ تھے تو ایک ہزار کے لشکر پر غالب آگئے تھے، اس موقع پر تو مسلمانوں کا بارہ ہزار کا لشکر تھا. اللہ تعالیٰ کو یہ گھمنڈ پسند نہ تھا. لہذا اکثر مؤرخین کا بیان ہے کہ پہلے ہلے ہی میں ہوازن اور ثقیف کے تیر اندازوں نے مسلمانوں پر تیروں کی جو بوچھاڑ کی تو ایک عام بھگدڑ مچ گئی اور بارہ ہزار کا لشکر تتر بتر ہوگیا. تاہم اس صورت میں بھی وہ پیکر مقدس میدان میں اپنی سواری پر جما رہا جو تنہا ایک فوج تھا، ایک اقلیم (۱تھا، مجموعۂ کمالاتِ انسانیہ تھا. صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم!بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضور کے ساتھ صرف چار سو جان نثار موجود تھے. بارہ ہزار کے لشکر میں سے صرف چار سو.بہرحال اِس موقع پر نبی اکرم اپنی سواری سے اترے، علم ہاتھ میں لیا اور پوری حیاتِ مُطَہِّرَہ میں پہلی بار پورے جلالِ نبوت کے ساتھ رجز پڑھا. صحیح بخاری میں روایت ہے کہ آپ نے بلند آواز سے فرمایا: 

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب!
اَنَا ابْنُ عبدِ المُطَّلِب!! 

’’میں اللہ کا نبی ہوں (اس میں ذرہ برابر) جھوٹ نہیں ہے، میں عبدالمطلب (جیسے شجاع) کا بیٹا ہوں‘‘.

حضرت عباسؓ قریب ہی تھے. وہ بلند آواز بھی تھے. لہذاآپ نے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو. انہوں نے نعرہ لگایا:

یا معشرَ الانصار!یا اصحابَ الشجرۃ! 
’’اے گروہِ انصار، اے اصحابِ شجرہ! (بیعت رضوان والو!)‘‘

اِن پُر تاثیر الفاظ کا کانوں میں پڑنا تھا کہ انصار و مہاجرین یہ کہتے ہوئے دفعتًا پلٹ پڑے کہ 
لبَّیک یارسولَ اللّٰہ وسَعدیک، نحن بین یدَیک پھر جو مسلمانوں نے حملہ کیا تو اچانک جنگ کا نقشہ ہی پلٹ گیا. عارضی و وقتی شکست کامل فتح سے بدل گئی. بہت سے کافر کھیت رہے، اکثریت فرار ہو گئی اور جو باقی رہ گئے وہ اسیر بنا لئے گئے. بے شمار مالِ غنیمت، مویشی اور سامانِ حرب ہاتھ آیا.