نبی اکرمﷺ نے اس پیچیدہ صورت حال کو جس عمدگی سے حل فرمایا وہ درحقیقت (۱) صحیح بخاری میں انس بن مالک ؓ نے اس موقع پر انصار کا یہ وضاحتی جملہ نقل کیا ہے
قَالَ لَہٗ فُقَھَاؤُھُمْ اَمَّاذُوُوْ آرَائِنَا یارَسُولَ اللّٰہِ فَلَمْ یَقُوْلُوْا شَیْئًا وَاَمَّا اُنَاسٌ مِنَّا حَدِیْثَۃٌ اَسْنَانُھُمْ
’’ انصار کے فقہا (وسرداران) نے کہا یا رسول اللہ یہ باتیں ہمارے سمجھدار لوگوں نے نہیں کیں بلکہ کچھ ایسے لوگوں نے کی ہیں جو ابھی اسلام میں نئے ہیں.
(صحیح بخاری کتاب الخمس باب ما کان النبی یعطی المولفہ قلوبھم) حضورﷺ کی فراست اور حسن تدبیر کا شاہکار ہے. یہ اور اسی نوعیت کی دیگر باتیں ہیں جن پر مستشرقین دنگ رہ جاتے ہیں، چاہے وہ منٹگمری واٹ ہو، چاہے ایچ جی ویلز ہو، چاہے کوئی اور نامی گرامی مستشرق، یہ کہ انسانی فطرت اور نفسیات سے واقفیت! یہ انسان شناسی! اور یہ صلاحیت کہ پیچیدہ سے پیچیدہ صورت حال کو خوب صورتی سے حل کر لینا، یہ تمام اوصاف اُس ذاتﷺ میں بدرجہ کامل جمع تھے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ انگریزی زبان میں تعریف و توصیف کے کوئی الفاظ ایسے باقی نہیں رہ گئے جو مسٹر منٹگمری واٹ نے اپنی کتاب "Mohammad at Madina" میں حضورﷺ کے لئے استعمال نہ کر دیئے ہوں. اس نے لکھا ہے کہ : اعلیٰ ترین تدبر و تفہم، معاملہ فہمی، انسان شناسی، دُور اندیشی، ان تمام اعتبارات سے جو اوصاف کسی بلند پایہ مدبر، کسی سیاست دان، کسی حکمران، کسی statesman کے اندر ہونے چاہئیں وہ بتمام و کمال محمد (ﷺ ) میں موجود تھے.
اسی فراست اور حسن تدبیر کی ایک نمایاں مثال ہے جو اس واقعہ میں سامنے آتی ہے. روایات میں آتا ہے کہ یہ چہ میگوئیاں سننے کے بعد حضورﷺ نے ایک بہت بڑا خیمہ لگانے کا حکم دیا. چنانچہ ایک بہت بڑا خیمہ نصب کیا گیا. پھر آپﷺ نے تمام انصار ؓ کو وہاں جمع کر لیا. وہاں آپﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا. یہ خطبہ فصاحت و بلاغت کی معراج کے علاوہ فراست و ذکاوت اور تدبر نبویﷺ کے ساتھ ساتھ علم نفسیات انسانی کے ادراک میں آپﷺ کی مہارت کا بھی شاہکار ہے. حضورﷺ نے انصارؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے معشر الانصار! کیا یہ درست نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے، اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے تمہیں ہدایت بخشی؟‘‘.
انصارؓ نے بیک زبان یہی جواب دیا ’’بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ (کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!) پھر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’یا معشر الانصار! کیا یہ درست نہیں ہے کہ تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے‘میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر اُلفت و محبت اور اتفاق پیدا فرمایا؟‘‘ (۱)
پھر حضورﷺ نے فرمایا:
’’یا معشر الانصار! کیا یہ درست نہیں ہے کہ تم مفلس تھے، اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے تمہیں غنی کر دیا؟‘‘
اس طرح آپﷺ وہ احسانات و انعامات گنواتے چلے گئے جو حضورﷺ کے ذریعہ سے انصار پر بالخصوص اور نوعِ انسانی پر بالعموم ہوئے تھے. اور ہر ہر جملہ پر تمام انصارؓ بیک زبان عرض کرتے رہے کہ ’’بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ (کیوں نہیں! اے اللہ کے رسولﷺ ہم تسلیم کرتے ہیں).
اس ارشاد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطاب کا رُخ بدلا اور ارشادفرمایا:
’’یا معشر الانصار! تم جواب میں یہ کہہ سکتے ہو کہ :اے محمد! (ﷺ ) جب تمہاری قوم نے تمہیں جھٹلایا، تمہاری تکذیب کی تو ہم تم پر ایمان لائے اور ہم نے تمہاری تصدیق کی. میں جواب میں کہوں گا کہ تم صحیح کہتے ہو‘‘.
پھر فرمایا:
’’یا معشر الانصار! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب تمہارے دشمنوں نے ہجرت پر مجبور کر دیا تو ہم نے تمہیں پناہ دی.میں جواب میں کہوں گا کہ تم صحیح کہتے ہو‘‘.
پھر حضورﷺ نے فرمایا:
’’یا معشر الانصار! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اے محمد(ﷺ ) تمہارا کوئی مدد کرنے والا نہیں تھا، ہم نے اپنی جانیں دی ہیں، ہم نے اپنا خون بہایا ہے جس کی (۱) اشارہ ہے اس دشمنی کی طرف جو اوس و خزرج کے قبائل میں برسوں سے نسلاً بعد نسل چلی آ رہی تھی جس کے باعث وقفہ وقفہ سے ان میں بار بار انتہائی خونریز اور خوفناک جنگیں ہوتی رہتی تھیں اور یہ دونوں قبیلے قریباً ختم ہوا چاہتے تھے اگر نبی اکرمﷺ مدینہ منورہ تشریف نہ لا چکے ہوتے. اسی کا ذکر ہے سورۂ آل عمران میں بایں الفاظ مبارکہ:
وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ بدولت آپﷺ کو یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے.اور میں جواب میں کہوں گا کہ تم صحیح کہتے ہو‘‘.
نبی اکرمﷺ کے اس پُرتاثیر خطبہ سے جب جذبات کی ایک خاص فضا پیدا ہو گئی تو آپﷺ نے ایک بار پھر خطاب کا رُخ بدلا اور ارشاد فرمایا:
’’یا معشر الانصار! کیا تمہیں یہ پسند اور منظور نہیں ہے کہ لوگ اونٹ بھیڑیں اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو واپس جائیں.اور تم محمدرسول اللہﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے گھروں کو واپس لوٹو؟‘‘
اس پر شدت جذبات سے تمام انصارؓ کی چیخیں نکل گئیں اور وہ سب بیک زبان پکاراُٹھے:
’’رضینا ، رضینا ، رضینا‘‘ ہم بالکل راضی ہیں (ہمیں نہ اونٹ چاہئیں نہ بھیڑیں اور بکریاں. ہمیں تو صرف اللہ کے رسول محمد ﷺ درکار ہیں.)
مجمع میں اکثر کا یہ عالم تھا کہ روتے روتے بے حال ہو گئے. آنسوؤں سے ڈاڑھیاں تر ہو گئیں. اس کے بعد حضورﷺ نے انصارؓ کے سامنے یہ حکمت بیان فرمائی کہ مکہ کے لوگ تازہ تازہ ایمان لائے ہیں، ان کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ کسی نا حق جانبداری کی بنا پر نہیں دیا گیا ہے بلکہ تالیف قلب کے لئے دیا گیا ہے.
اس انتہائی نازک اور پیچیدہ صورتِ حال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بالکل اتفاقیہ امر تھا کہ واقعتًا جن کی تالیف قلب کی گئی وہ نبی اکرمﷺ کے قبیلہ والے تھے، بہت سے حضورﷺکے رشتہ دار تھے. لہذا ایسی صورت حال پیدا ہو جانا بالکل فطری تھا لیکن فراست نبوی ﷺ اور آپﷺ کے حسن تدبیر نے کس خوبی سے اسے حل کیا! الغرض کسی بھی دوسرے انقلاب کے جو بھی اساسی تقاضے (Pre-requisites) ہوتے ہیں وہ سب کے سب آپﷺ کی انقلابی جدوجہد میں پورے کئے گئے تب وہ انقلاب برپا ہوا جو بلاشبہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب تھا.