فتح مکہ کے بعد پہلا حج (۸ھ)

فتح مکہ کے بعد رسول اللہ کا تدبر ملاحظہ کیجئے. اگرچہ آپ کو یہ پہلے سے اندازہ تھا کہ قریش میں بالکل دم خم نہیں ہے کہ وہ اسلامی فوج کا مقابلہ کر سکیں، ان کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، اسی وجہ سے آپ نے صلح کی تجدید سے اعراض فرمایا تھا لیکن فتح مکہ کے بعد آپ نے ایسا نہیں کیا کہ وہاں کے پورے نظام کو یکسر بدل دیا ہو. اس کے بالکل برعکس آپ نے ان مختلف ذمہ داریوں کو جو قریش کے مختلف خاندانوں کے سربراہوں کی تحویل میں تھیں انہی کے سپرد رہنے دیا، قطع نظر اس سے کہ وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں. آپ نے وہاں کے انتظامی معاملات کو قطعاً نہیں چھیڑا. یہاں تک کہ آپ نے اپنا کوئی امیر حج تک مقرر نہیں کیا کہ اب اس کی سرکردگی میں حج ہوگا، حالانکہ دو ماہ بعد حج ہونے والا تھا. بلکہ آپ نے نہایت نرم روش اختیار کی اور فتح مکہ کے بعد ذو الحجہ ۸ھ میں جو پہلا حج آیا وہ حسب سابق مشرکین ہی کے زیر انتظام و اِنصرام ہوا. صرف اس فرق کے ساتھ کہ مشرکین اپنے طریقے سے حج کر رہے تھے اور رسول اللہ کے اُمتی موحدین اسلامی طریق پر حج کر رہے تھے.