فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ کا تدبر ملاحظہ کیجئے. اگرچہ آپﷺ کو یہ پہلے سے اندازہ تھا کہ قریش میں بالکل دم خم نہیں ہے کہ وہ اسلامی فوج کا مقابلہ کر سکیں، ان کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، اسی وجہ سے آپﷺ نے صلح کی تجدید سے اعراض فرمایا تھا لیکن فتح مکہ کے بعد آپﷺ نے ایسا نہیں کیا کہ وہاں کے پورے نظام کو یکسر بدل دیا ہو. اس کے بالکل برعکس آپﷺ نے ان مختلف ذمہ داریوں کو جو قریش کے مختلف خاندانوں کے سربراہوں کی تحویل میں تھیں انہی کے سپرد رہنے دیا، قطع نظر اس سے کہ وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں. آپﷺ نے وہاں کے انتظامی معاملات کو قطعاً نہیں چھیڑا. یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنا کوئی امیر حج تک مقرر نہیں کیا کہ اب اس کی سرکردگی میں حج ہوگا، حالانکہ دو ماہ بعد حج ہونے والا تھا. بلکہ آپﷺ نے نہایت نرم روش اختیار کی اور فتح مکہ کے بعد ذو الحجہ ۸ھ میں جو پہلا حج آیا وہ حسب سابق مشرکین ہی کے زیر انتظام و اِنصرام ہوا. صرف اس فرق کے ساتھ کہ مشرکین اپنے طریقے سے حج کر رہے تھے اور رسول اللہﷺ کے اُمتی موحدین اسلامی طریق پر حج کر رہے تھے.