اب پانچویں آیت وہ ہے جو مشرکین عرب کے لئے عذابِ استیصال کا اعلان کرنے والی سخت ترین آیت ہے. اس سے زیادہ سخت کوئی آیت قرآن مجید میں نہیں ہے اور اس سورۂ مبارکہ کی یہی آیت ہے جس میں تلوار ہاتھ میں لے کر اُترنے والی شان نمایاں نظر آتی ہے. فرمایا:

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾ 

’’پس جب حرمت والے یہ مہینے ختم ہو جائیں تو قتل کرو ان مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ اور ان کو پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ان کی خوب خبر لینے کے لئے ہر گھات میں بیٹھو. پھر اگر وہ توبہ کریں (یعنی ایمان لائیں) اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو. یقینًا اللہ غفور اور رحیم ہے‘‘.

یہ آیت عام نہیں ہے. یعنی یہ دنیا کے تمام مشرکوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ صرف جزیرہ نمائے عرب کے اُن مشرکین کے لئے ہے جو نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں وہاں آباد تھے. اس لئے کہ حضور ان ہی میں سے تھے. ان کی زبان میں قرآن نازل ہوا تھا اور ان پر آخری درجہ میں اتمامِ حجت ہو چکا تھا. لہذا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اب بھی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں. یہ بالکل وہی قانون ہے کہ جس قانون کے تحت قومِ نوحؑ، قومِ ہودؑ، قوم صالح ؑ اور قومِ لوطؑ کو ہلاک کر دیا گیا. یعنی جس قوم کی طرف تعین کے ساتھ رسول کو بھیج دیا جائے اور رسول دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اپنی قوم پر اتمامِ حجت کر دے لیکن قوم اس کی بات کو نہ مانے تو وہ قوم کسی رعایت کی مستحق نہیں رہتی اور اسے اس دنیا میں نیست و نابود کر دیا جاتا ہے.

واضح رہے کہ یہ کسی عام داعی کی بات نہیں ہے، یہ رسول کی بات ہے. رسول تو اللہ تعالیٰ کی برہان بن کر مبعوث ہوتا ہے، وہ اللہ کی طرف سے بینات لے کر آتا ہے، اللہ کے حکم سے معجزات دکھاتا ہے، اس پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے کہ جس سے بڑی کوئی برہان اور کوئی بینہ ممکن نہیں ہے. اب ان تمام باتوں کے بعد بھی لوگ ایمان نہ لائیں تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس قوم کو ہلاک کر دیا جاتا ہے. اور یہ اللہ کا وہ غیر مبدل قانون ہے جس کے تحت پوری کی پوری قومیں ہلاک کر دی گئیں اور نقشہ یہ ہوتا رہا ہے کہ لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ یعنی قوم ختم ہو گئی، مسکن رہ گئے، کھنڈرات رہ گئے. مکان نظر آ رہے ہیں، مکین نظر نہیں آ رہے. مختلف قوموں پر عذابِ اِستیصال مختلف صورتوں میں آیا ہے. کہیں ایسا ہوا ہے کہ ایک عالمگیر نوعیت کا سیلاب لا کر پوری کی پوری قوم کو غرق کر دیا گیا، جیسے حضرت نوحؑ کی قوم کے ساتھ ہوا. کہیں ایسا ہوا ہے کہ قوم کے چیدہ چیدہ لوگوں کو نکال کر سمندر میں غرق کر دیا گیا، جیسے آلِ فرعون کے ساتھ ہوا. کہیں ایسا ہوا کہ منکرین کی بستیوں ہی میں عذاب آیا. کہیں زلزلہ آ گیا، کہیں پتھراؤ کیا گیا، کہیں طوفان باد و باراں آ گیا، کہیں بستیوں کو اٹھا کر پلٹ دیا گیا. کہیں ایسی چنگھاڑ اور گرج بھیج دی گئی کہ جسے سن کر پوری کی پوری بستی ختم ہو گئی تو عذابِ استیصال کی یہ مختلف صورتیں رہی ہیں.