انقلاب کی چند مثالیں

کامل انقلاب کی مثال تو تاریخ انسانی میں ایک اور صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام. جس کے نتیجہ میں انسانی زندگی کا ہر گوشہ بدل گیا تھا. چنانچہ نہ صرف یہ کہ اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤ ں میں انقلاب آ گیا یعنی معاشرتی، سماجی، سیاسی، معاشی، عدالتی، دستوری اور آئینی غرضیکہ وہ تمام شعبے یکسر بدل گئے جو اجتماعیاتِ انسانی سے متعلق ہیں، بلکہ انفرادی زندگی بھی پورے طور پر اس کی لپیٹ میں آگئی تھی، چنانچہ اخلاق بدل گئے، عقائد بدل گئے، صبح وشام کے معمولات اور رہن سہن کے طور طریقے سب بدل گئے. مختصراً یہ کہ ایک ایسا انقلاب جو پوری انسانی زندگی کو اپنی گرفت اور اپنے احاطہ میں لے لے، یعنی جسے ہم کامل انقلاب (Complete Revolution) کہہ سکیں، وہ تو صرف انقلابِ محمدی ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل جناب محمد رسول اللہ  نے جزیرہ نمائے عرب میں برپا کیا تھا. لیکن اس سے نیچے اتر کر وہ انقلابات جو کسی نہ کسی درجہ میں ’’انقلاب‘‘ کا عنوان پانے کے مستحق بن سکتے ہیں ان میں دو انقلابات قابل ذکر ہیں. ایک ہے انقلابِ فرانس، جس کے نتیجہ میں سیاسی ڈھانچہ بدل گیا تھا. یعنی ملوکیت کا دور ختم ہوا اور جمہوریت کے دور کا آغاز ہوا. اسی طرح دوسرا انقلاب جس پر لفظ انقلاب کا کسی درجہ میں اطلاق ہوتا ہے وہ ہے روس کا انقلاب یعنی بالشویک انقلاب جس کے نتیجہ میں معیشت کا پورا ڈھانچہ بدل گیا، تمام ذرائع پیداوار انفرادی ملکیت سے نکل کر اجتماعی ملکیت میں لے لئے گئے.

آغاز میں تو وہاں بہت انتہا پسندی تھی کہ انفرادی ملکیت کی کامل نفی تھی، لیکن ہوتے ہوتے پھر وہ یہاں تک پہنچے کہ ذاتی استعمال کی چیزیں انفرادی ملکیت ہو سکتی ہیں. جیسے ایک شخص کے پاس سائیکل ہے جس پر وہ دفتر یا کارخانے جاتا ہے تو یہ اس کی ذاتی ملکیت ہے. کسی شخص کے پاس رہنے کے لئے مکان ہے تو اس کی ذاتی ملکیت ہو سکتا ہے. اسی طرح اس کے پاس گھریلو استعمال کا جو سامان ہے، وہ بھی اس کی ذاتی ملکیت ہے. لیکن ذرائع پیداوار (Means of Production) جن سے انسان مزید پیدا کرتا ہے، جسے وہ آمدنی کا ذریعہ بناتا ہے، کسی فرد کی ملکیت میں نہیں رہیں گے، بلکہ وہ پوری قوم اور ریاست کی ملکیت قرار پائیں گے اور حکومت ان کا انتظام کرے گی. ان ذرائع پیداوار سے جو یافت (۱ہو گی، حکومت کوشش کرے گی کہ اس کو پوری قوم میں ایک مقررہ معیار کے مطابق حصہ رسدی کے اصول پر تقسیم کر دیا جائے. بہرحال یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کے اعتبار سے بالشویک ریوولیوشن (۲بھی یقیناً ایک انقلاب (۱) آمدنی (۲Balshavik Revolution تھا. الغرض سیاسی سطح پر انقلابِ فرانس اور معاشی سطح پر انقلابِ روس یقینا ’’انقلابات‘‘ قرار دیئے جانے کے مستحق ہیں. اور ان دونوں میں آپ کو یہ قدرِ مشترک نظر آئے گی کہ یہ انقلابات اپنے ملکوں تک محدود نہیں رہے بلکہ وسعت پذیر ہوئے. انقلابِ فرانس کے نتیجہ میں جمہوریت کا جو سیاسی نظام آیا وہ صرف فرانس تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں جمہوریت کے قیام کیلئے تحریکیں چلیں اور کامیاب ہوئیں. اگرچہ آپ کو یہ عجیب بات نظر آئے گی کہ یورپ میں بعض ممالک نے ابھی تک بادشاہت کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے لیکن دراصل اس کی حیثیت محض آرائشی وزیبائشی نوعیت کی ہے. ورنہ در حقیقت ملوکیت کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب جمہوریت ہی کا دور ہے. اسی طرح روس کا جو انقلاب تھا اس کے بطن سے نہ معلوم کتنے انقلابات برآمد ہوئے اور کرۂ ارضی پر نصف کے لگ بھگ ممالک ایسے ہوں گے جن پر کسی نہ کسی شکل میں اس نظریہ کی حکمرانی قائم ہوئی جس کے تحت ۱۹۱۹ء میں روس میں پہلا انقلاب آیا تھا. 

انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس کے حوالے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ کسی بھی حقیقی وواقعی انقلاب میں بنیادی طور پر وسعت پذیری کی خصوصیت وصلاحیت موجود ہوتی ہے. نبی اکرم کے معاملے میں تو اس کی اہمیت وضرورت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ آپ کا لایا ہوا انقلاب محض جزیرہ نمائے عرب کی حد تک محدود نہ ہو جائے بلکہ آگے بڑھے اور پھیل جائے. اس لئے کہ حضور خاتم البنیین بھی ہیں اور آخر المرسلین بھی. اور آپ کی دعوت محض اہل عرب کے لئے نہ تھی بلکہ پوری نوعِ انسانی کے لئے تھی . لہذا آپ کے مقصد بعثت کا بھی یہ تقاضا تھا کہ آپ نہ صرف یہ کہ عرب کی حد تک انقلاب کی تکمیل بنفسِ نفیس فرمائیں بلکہ اپنی حیاتِ طیبہ ہی میں اس کے بین الاقوامی مرحلہ کا آغاز فرما کر مستقل طور پر امت کی رہنمائی فرما دیں.

تاہم انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کی تکمیل درحقیقت اس وقت ہوگی جب پورے کرۂ ارضی پر دین حق اسی طرح غالب ہو جائے جیسے نبی اکرم  نے آج سے چودہ سو سال قبل جزیرہ نمائے عرب پر غالب فرما دیا تھا. چنانچہ آفاقی سطح پر انقلابِ محمدی کی 
تکمیل کا مرحلہ ابھی باقی ہے. اس مفہوم کو علامہ اقبال مرحوم نے اس شعر میں بڑی خوبصورتی سے ظاہر کیا ہے ؎ 

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے!
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!

یعنی جب تک نورِ توحید سے پورا کرۂ ارضی جگمگا نہیں اٹھتا اس وقت تک امت مرحومہ اطمینان کا سانس نہیں لے سکتی. اس پر تو لازم ہے کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ اور اقامت دین کی جدوجہد مسلسل جاری رکھے. ازروئے الفاظ قرآنی

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ (الحج:۷۸
’’اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ اس کیلئے جہاد کا حق ہے. (اے امت مسلمہ) اُس (اللہ) نے تمہیں (اس کام کیلئے) چن لیا ہے‘‘