توحیدکی ایک قسم علمی وفکری یعنی عقیدہ کی توحید ہے کہ اللہ کو ذات وصفات کے اعتبارات سے ایک مانا جائے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے. جیسا کہ فرمایا گیا:

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪ 
(بنی اسرائیل:۱۱۱
’’اور کہہ دو سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا سلطنت میں شریک ہے اور نہ کوئی کمزوری کی وجہ سے اس کا مددگار ہے. اور اس کی بڑائی بیان کرتے رہو، کمال درجے کی بڑائی‘‘.

جب کہ توحید کی دوسری قسم عملی توحید ہے، یعنی صرف اللہ ہی کے بندے بن جانا. فرمایا :

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ (البقرۃ:۲۱)
’’اے لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے (اس) رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا‘‘.

اللہ کی اطاعت کو اپنے آپ پر اس طرح لازم وفرض کر لینا کہ اس کی اطاعت سے آزاد کسی اور کی اطاعت اس میں شامل نہ ہو. اس عملی توحید کا اجتماعی سطح پر تقاضا اس وقت پورا ہو گا جب وہ نظام قائم ہو جائے گا جس میں حاکمِ مطلق (Supreme Authority) صرف اللہ کو مانا جائے. اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ یعنی نہ صرف یہ تسلیم کیا جائے کہ قانون وشریعت دینے کا اختیار صرف اس (تعالیٰ) کے پاس ہے. بلکہ بالفعل اللہ کے دین اور اس کی شریعت کو پورے اجتماعی نظام پر غالب ونافذ کر دیا جائے. لِتَـکُوْنَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا یہی عملی توحید ہے. اور توحید کی یہ شکل جب تک عالمی سطح پر عملی اعتبار سے مکمل طور پر قائم ونافذ نہیں ہوتی اس وقت تک انقلابِ محمدی کی تکمیل کا مرحلہ ابھی باقی ہے. گویا ؏ نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!