حضرت دحیہ کلبی ؓ جو قیصر روم کے نام حضور کا نامہ مبارک لے کر چلے تھے جب دمشق کے قریب بصریٰ کے مقام پر پہنچے جو غسانیوں کا دار الحکومت تھا تو ان کو پتہ چلا کہ قیصر ان دنوں یروشلم میں ہے. اس وقت اس خاندان کا رئیس حارث غسانی تھا. حارث غسانی نے حضرت دحیہؓ کو قیصر کے پاس بیت المقدس بھیج دیا. چنانچہ وہ حضور کا نامۂ مبارک لے کر یروشلم پہنچ گئے. 

جناب محمد رسول اللہ  کا نامہ مبارک جب قیصر کو پہنچا تو چونکہ وہ خود تو راۃ وانجیل کا عالم تھا لہذا خط پڑھتے ہی جان گیا کہ یہ وہی آخری رسول ہیں کہ جن کی بعثت کی ہمارے یہاں پیشین گوئیاں موجود ہیں. آخر وہ بھی شام کا عیسائی راہب ہی تھا جس نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو یہ خبر دے کر مدینہ کی طرف بھیجا تھا کہ میرا علم بتاتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے ظہور کا وقت آگیا ہے اور ان کی بعثت عرب کے ریگستان اور کھجوروں کے جھنڈ میں ہو گی. معلوم ہوا کہ یہ بات عیسائیوں کے خدا ترس رہبان واحبار جانتے تھے کہ آخری نبی کے ظہور کا وقت اب قریب ہے. قیصر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ آخری نبی کا ظہور شام میں ہو گا، مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی بعثت عرب میں ہو گی. نبی اکرم  کا نامہ مبارک پڑھ کر اور آپ کو پہچان کر قیصر کا جو طرزِ عمل سامنے آتا ہے اس سے اندازہ 
ہوتا ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ اگر میری پوری مملکت ایمان لے آئے تو گویا ہم اجتماعی طور پر (En Bloc) مسلمان ہو جائیں گے، اور اس طرح میری مملکت بھی قائم رہے گی اور میری حکومت بھی برقرار رہے گی. 

گزشتہ صفحات میں ذکر ہو چکا ہے کہ غیر عرب غیر مسلموں کے لئے مسلمانوں کی تین شرطیں ہوتی تھیں. ایک یہ کہ اگر تم ایمان لے آؤ تو تم ہمارے بھائی ہو ں گے، تمہاری تمام املاک، تمہاری عزت وآبرو الغرض تمہاری ہر شے محفوظ اور برقرار 
(Intact) رہے گی. تمہیں وہ تمام حقوق مساوی طور پر حاصل ہوں گے جو بحیثیت مسلمان ہم کو حاصل ہیں. دوسرے یہ کہ اگر یہ منظور نہیں اور تم ایمان نہیں لاتے تو چھوٹے یعنی ماتحت اور ذمی بن کر رہو اور جزیہ ادا کیا کرو یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ملکی قانون (Law of the Land) بہرصورت اسلام کا ہو گا. ہاں کسی کو بزورِ شمشیر اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا. تمام غیر مسلموں کو ان کے احوالِ شخصیہ (Personal Law) میں پوری آزادی ہو گی، حتیٰ کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق پوجا پاٹ کا جو طریقہ اختیار کرنا چاہیں اس میں اسلامی حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی. اور تیسرے یہ کہ اگر یہ بھی منظور نہیں ہے تو پھر میدان میں آؤ ، ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی. ان تین کے سوا چوتھی اور کوئی صورت نہیں ہے.

قیصر کی اس خواہش اور کوشش کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے کہ اس کے عمائدین سلطنت اور اس کی رعیت مجموعی طور پر ایمان لے آئے اور اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو جائے. جن لوگوں نے یورپ اور خاص طور پر عیسائیت کی تاریخ پڑھی ہے، ان کے علم میں ہو گا کہ حضرت مسیح ؑ کے رفع سماوی کے قریباً ساڑھے تین سو برس بعد رومۃ الکبریٰ (موجودہ اٹلی) کے شہنشاہ کنسٹنٹائن (قسطنطین) اور اس کی پوری رعایا نے مجموعی طور پر 
(En Bloc) عیسائیت قبول کر لی تھی. لہذا کسی نوع کا اعتقادی یا سیاسی مسئلہ اور تنازعہ کھڑا نہیں ہوا اور قسطنطین کی شہنشاہیت جوں کی توں برقرار رہی. اسی سبب سے ایک طرف یورپ میں عیسائیت نے فروغ پایا اور دوسری طرف شہنشاہِ روم نے اپنا پایۂ تخت روم کو چھوڑ کر استنبول کو قرار دیا.

چنانچہ اس کے نام پر اس شہر کا نام قسطنطنیہ رکھا گیا. وہاں سے اس نے ایشیائے کوچک اور شمالی افریقہ پر فوج کشی کی اور عیسائیت کو فروغ دینے کی مہمات شروع کیں جن میں اس کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی. اس تاریخی تناظر میں دیکھئے تو قیصر کا طرز عمل سمجھ میں آتا ہے. چنانچہ نامہ مبارک کے ذریعے حضور کو پہچان لینے کے بعد اس نے چاہا کہ اس کی پوری مملکت اسی طرح اسلام کو قبول کرے جیسے ساڑھے تین سو سال قبل پوری سلطنت روم نے عیسائیت کو بطور مذہب اختیار کر لیا تھا تاکہ اس کی حکومت قائم وبرقرار رہے.

لیکن اس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اس کے لئے تدبیر کیا ہو؟ اس کے دربار میں بڑے بڑے جغادری عیسائی علماء موجود تھے، قِسِّیْسِیْن تھے، بطریق تھے، تمام عمائد واعیانِ حکومت تھے، پھر فوج تھی، اب ان سب کو کس طرح راضی کیا جائے؟ ان منصب داروں اور امراء 
(Lords) کے بل پر اس کی حکومت قائم تھی. لہذا جب تک یہ لوگ مطمئن ہو کر ایمان نہ لائیں اس کی حکومت کو خطرہ لاحق تھا. اس نے کچھ دیر توقف کیا، ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی، اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ ان دنوں عربوں کا کوئی تجارتی قافلہ تو یہاں نہیں آیا؟ بتایا گیا کہ عربوں کا ایک تجارتی قافلہ اس علاقے میں آیا ہوا ہے اور فی الوقت غزہ میں مقیم ہے. قیصر نے فوراً قاصد بھیج کر قافلے کے لوگوں کو یروشلم بلا لیا. اس قافلہ کے رئیس ابو سفیان تھے جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.

ہرقل قیصر روم نے ایک عالی شان دربار منعقد کیا. اس موقع پر بیت المقدس میں اس کے جو اعیان وعمائدین مملکت اور سپہ سالار موجود تھے، ان کو جمع کیا. پھر بطارقہ، قِسِّیْسِیْن اور احبار ورہبان کی صفیں لگوائیں اور دربار میں ابوسفیان کو ان کے ہمراہیوں سمیت بلایا گیا. پہلے تو دربار میں نبی اکرم کا نامہ مبارک پڑھ کر سنایا گیا. (اس نامہ گرامی کا متن ابن ہشام اور طبری نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور بحمدللہ یہ نامہ مبارک اپنی اصل حالت میں اب بھی قسطنطنیہ کے عجائب خانہ میں موجود ہے.)

نبی اکرم  کے نامہ مبارک کی عبارت یہ ہے: 
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلٰی ھِرَقْل عَظِیْمِ الرُّوْمِ، سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّـبَعَ الْھُدٰی، اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ بِدِعَایَـۃِ الْاِسْلَامِ، اَسْلِمْ تَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ، فَاِنْ تَوَلَّـیْتَ فَاِنَّ عَلَیْکَ اِثْمَ الْاَرِیْسِیِّیْنَ، وَیٰااَھْلَ الْکِتٰبِ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (۱

’’محمد ( ) کی طرف سے، جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، ہرقل کے نام جو روم کا رئیس اعظم ہے. سلامتی ہے ہر اس شخص کے لئے جس نے ہدایت (ربانی) کی پیروی کی. اس کے بعد (اے رئیس اعظم!) میں تجھے دعوتِ اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام قبول کر لے تو تُوسلامت رہے گا. (بلکہ) اللہ تعالیٰ تجھے دہرا اجر عطا فرمائے گا. اگر تُونے (قبول کرنے سے) اعراض کیا (تو نہ صرف تو اکیلا مجرم ٹھہرے گا بلکہ) اہل ملک کا گناہ (بھی) تیرے اوپر ہو گا. اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف پیش قدمی کرو جو ہمارے اور تمہارے مابین مساوی ہے، (وہ) یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کریں اور نہ ہی ہم اس ہستی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں، اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو (اپنا) پروردگار تسلیم کرے. پس اگر وہ (اہل کتاب دعوتِ اسلام کو قبول کرنے سے) اعراض کریں تو (اے مسلمانو!) تم (انہیں) کہہ دو کہ (اے اہل کتاب ہمارے معاملہ میں) تم گواہ رہو کہ ہم تو (ہر حال میں اس دعوت پر) سرِ تسلیم خم کر دینے والے ہیں‘‘.(۱) صحیح مسلم کتاب الجھاد والسیر باب کتاب النبی الی ھرقل بدعوہ الی الاسلام، صحیح بخاری باب کیف بدء الوحی الی رسول اللہ