اس کے بعد قیصر اور ابو سفیان کے مابین جو مکالمہ ہوا اس پر غور کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہرقل نے ابوسفیان سے بالکل اسی انداز میں جرح کی جیسے وکلاء بحث وجرح کرتے ہوئے حقائق ودلائل کو واضح کرنے کے لئے Suggestive Questions کرتے ہیں. یعنی ایسے سوالات کہ جن کے جوابات کے ذریعے از خود جرح کرنے والے کے موقف کی تائید ہوتی چلی جائے اور بات اس انداز میں کھل کر سامنے آجائے کہ سامعین کے لئے حق کو پہچان لینا بالکل آسان ہو جائے. ابو سفیان سے ہرقل نے جس گہرائی کے ساتھ سوالات کئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس پایہ کا عالم تھا اور یہ کہ وہ حضور کو نبی آخر الزمان کی حیثیت سے پہچان چکا تھا. ابو سفیان(رضی اللہ عنہ)کا ایک قول ملتا ہے، جو ایمان لانے کے بعد کا ہے کہ خدا کی قسم اس مکالمہ کے دوران کئی بار میرا جی چاہا کہ میں جھوٹ بول دوں، اس لئے کہ قیصر کے سوالات مجھے گھیرتے چلے جا رہے تھے او ر میں محسوس کر رہا تھا کہ میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک رہی ہے. لیکن میں نے سوچا کہ میرے ساتھی کیا کہیں گے کہ قریش کا اتنا بڑا سردار جھوٹ بول رہا ہے. چنانچہ میں جھوٹ نہیں بول سکا. اس بات سے عربوں کی یہ ایک مزاجی خصوصیت سامنے آتی ہے کہ دورِ جاہلیت میں بھی بے شمار برائیوں کے باوجود ان میں چند اعلیٰ انسانی اوصاف موجود تھے. مکالمہ ملاحظہ فرمائیے. (۱(۱) صحیح بخاری باب کیف بدأ الوحی حدیث نمبر۷

قیصر مدّعی ٔ نبوت کا خاندان کیسا ہے؟
ابوسفیان شریف ہے.
قیصر اس خاندان میں کسی اور نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟
ابوسفیان نہیں.
قیصر اس خاندان میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
ابوسفیان نہیں .
قیصر جن لوگوں نے یہ مذہب قبول کیا ہے، وہ کمزور لوگ ہیں یا صاحبِ اثر؟
ابوسفیان کمزور لوگ ہیں.
قیصر اس کے پیرو بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جا رہے ہیں؟
ابوسفیان بڑھتے جا رہے ہیں.
قیصر کبھی تم لوگوں کو اس کی نسبت جھوٹ کا بھی تجربہ ہوا ہے؟
ابوسفیان نہیں.
قیصر وہ کبھی عہد واقرار کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے؟
ابوسفیان… ابھی تک تو نہیں کی، لیکن اب جو نیا معاہدۂ صلح ہے اس میں دیکھیں وہ عہد پر قائم رہتا ہے یا نہیں.
قیصر تم لوگوں نے اس سے کبھی جنگ بھی کی؟
ابوسفیان ہاں.
قیصر نتیجۂ جنگ کیا رہا؟
ابوسفیان کبھی ہم غالب آئے اور کبھی وہ.
قیصر وہ کیا سکھاتا ہے.
ابوسفیان…کہتا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو، کسی اور کو خدا کا شریک نہ بناؤ، نماز پڑھو، پاکدامنی اختیار کرو، سچ بولو، صلہ رحمی کرو.

علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں کہ اس مکالمہ کے بعد قیصر نے مترجم کے ذریعہ سے یہ تبصرہ کیا:
’’تم نے اس کو شریف النسب بتایا، پیغمبر اچھے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں. تم نے کہا کہ اس کے خاندان سے کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا، اگر ایسا ہو تا تو میں سمجھتا کہ یہ خاندانی خیال کا اثر ہے. تم تسلیم کرتے ہو کہ اس کے خاندان میں کوئی بادشاہ نہ تھا، اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اس کو بادشاہت کی ہوس ہے. تم مانتے ہو کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، جو شخص آدمیوں سے جھوٹ نہیں بولتا، وہ خدا پر کیوں کر جھوٹ باندھ سکتا ہے. تم کہتے ہو کہ کمزوروں نے اس کی پیروی کی ہے (تو) پیغمبر کے ابتدائی پیرو ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوتے ہیں. تم نے تسلیم کیا کہ اس کا مذہب ترقی کرتا جاتا ہے، سچے مذہب کا یہی حال ہے کہ بڑھتا جاتا ہے. تم تسلیم کرتے ہو کہ اس نے کبھی فریب نہیں کیا، پیغمبر کبھی فریب نہیں کرتے. تم کہتے ہو کہ وہ نماز اور تقویٰ وعفاف (۱کی ہدایت کرتا ہے، اگر یہ سچ ہے تو میری قدم گاہ تک اس کا قبضہ ہو جائے گا. مجھے یہ ضرور خیال تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے، لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ عرب میں پیدا ہو گا. اگر میں وہاں جا سکتا تو خود اس کے پاؤں دھوتا‘‘.
یہ ہے ہرقل قیصر روم کا تبصرہ جو کتب سِیَر میں محفوظ ہے.