ہمارے اس ملک میں بسنے والے سُنّی مسلمانوں کی عظیم ترین اکثریت حنفی المسلک ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف یہی ہے کہ فاسق وفاجر مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہو سکتا ہے. البتہ اس کے لئے شرائط بڑی کڑی ہیں. امام صاحبؒ کے حالاتِ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت نفس زکیہؒ کی تائید بھی کی تھی اور ان کو مالی اعانت بھی فراہم کی تھی جنہوں نے بنو عباس کی حکومت کے خلاف خروج کیا تھا. البتہ امام صاحب نَوَّر اللہ مرقدہ، بنفسِ نفیس میدان میں نہیں آئے تھے. تاریخ کی تمام مستند کتابوں میں ان باتوں کا ثبوت موجود ہے. لہذا دینی اور شرعی اعتبار سے ایسا معاملہ نہیں ہے کہ کسی حال اور کسی (۱) پیشرو،بزرگ (۲)جانشین (۳) درستی صورت میں بھی کسی فاسق وفاجر حکمران کے خلاف خروج یا بغاوت نہ کی جا سکے. البتہ فقہائے احناف نے اس کے لئے بڑی کڑی شرائط لگائی ہیں.
ایک شرط
تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے کھلم کھلا اور برملا کسی ایسی بات کا ظہور ہو رہا ہو جو خلافِ اسلام ہے. مثلاً کوئی شخص اپنے گھر میں بیٹھ کر شراب پی رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے. لیکن اگر وہ شراب نوشی کی ترویج کر رہا ہو، لوگوں کو اس کے استعمال کی ترغیب وتشویق دے رہا ہو تو معاملہ مختلف ہو جائے گا. ایسے حکمران کو معزول کرنے کے لئے قوت فراہم کرنا اور خروج کرنا بالکل جائز اقدام ہو گا.
دوسری شرط
یہ ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لئے جو لوگ اٹھیں ان کی طاقت اور ان کے اثرات اتنے زیادہ ہو چکے ہوں کہ وہ یقین رکھتے ہوں کہ ہم تبدیلی برپا کر دیں گے. یہ نہیں کہ تھوڑی سی طاقت کے ساتھ تصادم کا آغاز کر دیں، جس کا نتیجہ بدامنی کی صورت میں ظاہر ہو اور وہ لوگ ختم ہو کر رہ جائیں. بلکہ صورت یہ ہونی چاہئے کہ بحالات ظاہر یہ امیدِ واثق (۱) ہو کہ ہم نظام کو بدل سکتے ہیں. ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ اپنی جانوں کا ہدیہ پیش کر دیں اور نظام جوں کا توں قائم رہے. تو یہ ہے اس مسئلہ کی خالص دینی اور شرعی حیثیت .
ایک قابلِ لحاظ نکتہ
موجودہ دور میں بالفعل یہ صورت پیدا ہو چکی ہے کہ اب خروج وبغاوت کا امکان ہی موجود نہیں. اس لئے کہ اُس زمانہ میں باقاعدہ تنخواہ دار فوجیں (Standing Armies) نہیں ہوتی تھیں. اگر ہوتی بھی تھیں تو بہت کم. جب کہ آج کل قریباً ہر حکومت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں تربیت یافتہ اور منظم فوجیں موجود ہوتی ہیں. ثانیاً اُس دور میں جس نوع کا اسلحہ فوجوں کے پاس ہوتا تھا قریباً اسی نوع کا عوام کے پاس بھی ہوتا تھا. اس میں مقدار کا فرق تو ہو سکتا ہے، لیکن وہی تلواریں، وہی نیزے، وہی تیر، وہی ڈھالیں جو فوج کے پاس ہیں وہی عوام کے پاس بھی ہیں. تو اُس زمانہ میں نسبت وتناسب کا کوئی نہ کوئی معاملہ موجود (۱) پکی امید تھا. لیکن اب جو تمدن کا ارتقاء ہوا ہے تو یہ صورت باقی نہیں رہی ہے. حکومت کے وسائل، اس کی طاقت، اس کی فوجیں اور اسلحہ کے معاملہ کی نوعیت بالکل بدل چکی ہے. چنانچہ اب سرے سے کوئی نسبت وتناسب موجود ہی نہیں ہے. حکومتی افواج نہ معلوم کس کس نوعیت کے اعلیٰ اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں اور اس طرح حکومت ایک قوی ترین ادارہ بن چکی ہیں، جب کہ عوام قریباً بالکل نہتے ہیں. تو یہ فرق وتفاوت اتنا عظیم ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. لہذا خروج اور بغاوت بحالاتِ موجودہ تقریباً خارج از بحث ہو چکی ہے. شرعی اعتبار سے نہیں، حالات کے اعتبار سے اب اس کا کوئی امکان نہیں ہے.