ہمارے معاشرہ میں اسلامی شعائر مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی اجازت ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے. حتیٰ کہ بھٹو صاحب کے دور میں بھی ان شعائر سے روکتا تو کوئی نہیں تھا. البتہ یہ فضا بڑی حد تک پیدا ہو گئی تھی کہ بھٹو صاحب کی پارٹی کے اکثر کارکن ان چیزوں کا مذاق اڑانے لگے تھے. ضیاء الحق صاحب کے دور میں وہ بات نہیں رہی کہ کسی نمازی پر فقرے چُست کئے جائیں یا کوئی سرکاری افسر اس بات پر شرمائے کہ وہ اگر کسی فنکشن یا مجلس سے نماز کے لئے اٹھ کر جائے گا تو لوگ کیا کہیں گے؟ ماحول میں کچھ نہ کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے. لیکن سوا ل یہ ہے کہ کیا یہی سب کچھ ہے؟ ایک شخص کی رائے ہو سکتی ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ ہم نے صرف اوپر سے غازہ مل دیا ہے، حقیقت کے اعتبار سے تو یہ کچھ بھی نہیں بدلا. یہ محض تصنّع ہے جس کے باعث عوام کے اندر اسلام سے بددلی پیدا ہو رہی ہے کہ ہمارے شب وروز تو وہی ہیں جو پہلے تھے، بلکہ بگاڑ میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے. وہی سرمایہ دار، جاگیردار اور زمیندار کی حکومت ہے، وہی رشوت کا لین دین دھڑلّے سے ہو رہا ہے بلکہ خود سربراہِ مملکت کے بقول اس کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں. اسمگلنگ کا کاروبار کھلے بندوں ہو رہا ہے.

سود کا لین دین جاری ہے. منشیات کی اندرونی وبیرونی تجارت کھلے عام ہو رہی ہے. بلیک مارکیٹنگ کا دھندا زوروں پر ہے. ڈاکہ، چوری، لوٹ مار، قتل وغارت کا بازار گرم سے گرم تو ہوتا جا رہا ہے. اغوا اور عصمت دری کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں. علاقائی قومیتوں کا احساس مزید ابھر رہا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں جلد ہی یہ بہت سے خوفناک عفریتوں کا روپ نہ دھار لے. استحصالی اور جابرانہ نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے. ایک طرف حالات کی صحیح تصویر یہ ہے، دوسری طرف اسلام آرہا ہے، اسلام آرہا ہے کے فلک شگاف نعرے لگائے جا رہے ہیں. بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں. حالانکہ آج کے اور دس بارہ سال قبل کے معاشرہ کا تقابل کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ سرِ مُو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ بحیثیتِ مجموعی حالات روز بروز بدتر سے بدترین ہوتے چلے جا رہے ہیں، بلکہ ہم نے اس معاشرے پر اوپر کا کچھ غازہ مل کر اور کچھ ظاہری ٹیپ ٹاپ کر کے اسے اسلامی معاشرہ کہہ دیا ہے اور ساری دنیا میں اس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے.

ان حالات میں ضروری ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ کھڑا ہو اور وہ برملا یہ حق بات کہے کہ ہمیں اس دھوکے کا پردہ چاک کرنا ہے اور انقلابی طریق کار عمل کرتے ہوئے اس نظام کو بیخ وبُن سے اکھاڑ کر اس کی جگہ صحیح وکامل اسلامی نظام قائم کرنا ہے. ایسے شخص کا دینی فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس کی دعوت دے، اس کے لئے لوگوں کو جمع کرے، انہیں منظم کرے، ان کی تربیت کا انتظام کرے. جب تک وہ امنِ عامہ کی موجودہ صورتحال کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتا، جب تک وہ زبان سے بغاوت کا اعلان نہیں کرتا، اسے یہ کام کرنے کا آئینی وقانونی حق ہے. بلکہ یہ اس کے اپنے ایمان کا تقاضا ہے کہ ابتدائی مراحل میں اولاً دعوت کا مرحلہ ہے. پھر لوگوں کی تنظیم ہے، پھر ان کی تربیت ہے. پھر اس دوران اس پر جو تکلیف آئے اسے جھیلنا ہے. اس لئے کہ اسے خود اپنے اوپر اسلام قائم کرنا ہے. مثلاً ایک شخص کے کاروبار کی کافی وسیع وعریض بساط بچھی ہوئی تھی، لیکن وہ اگر آج اسے سود کی آمیزش اور آلودگی سے پاک کرنے کی فکر کرتا ہے تو اس کے کاروبار کی بساط لپٹنی شروع ہو جائے گی. اگر کسی شخص کے گھر میں رشوت کے ذریعے سے اللّے تللّے ہو رہے تھے، آج وہ طے کرتا ہے کہ میں اب رشوت نہیں لوں گا تو اس کے خاندان کو دونوں وقت سادہ ترین غذا بھی شاید بمشکل ملے. اگر کوئی اللہ کا بندہ اپنے ہی گھر میں صحیح شرعی پردہ نافذ کر دے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی میں نکّو 
(۱بن کر رہ جائے گا اور اس کے اپنے اعزہ واقارب اسے دیوانہ اور مجنون کہنے لگیں گے اور اس کا مُقَاطعہ (۲کر دیں گے. وہ یہ سب تکلیفیں جھیلے، انہیں برداشت کرے، ان میں سے کسی بھی مصیبت پر جوابی کارروائی کے متعلق نہ سوچے، Retaliate نہ کرے.

کہیں جذبات سے مغلوب ہو کر مشتعل نہ ہو، کسی کو گالی نہ دے، کوئی ایسا اقدام نہ کرے کہ جس سے امن کا معاملہ درہم برہم ہو. یہ ہے اس دور میں ایک سچے (۱) بدنام (۲) قطع تعلق،بائیکاٹ مسلمان کی حقیقی تربیت کی کسوٹی. آج کلمۂ توحید ورسالت پڑھنے پر مار نہیں پڑے گی، مقاطعہ نہیں ہو گا، گھروں سے نکالا نہیں جائے گا، مجنون اور دیوانہ نہیں کہا جائے گا، تمسخر اور استہزاء نہیں ہو گا، بلکہ اِ س دور میں اگر کوئی شخص ہزار دانے کی تسبیح لے کر سڑک پر کہیں بیٹھ جائے اور بلند آواز سے کلمہ کا ورد کرے یا ’’حق ہُو، حق ہُو‘‘ کے نعرے لگائے تو موجودہ معاشرہ ایسے شخص کی بڑی عزت وتوقیر کرے گا، اسے پہنچا ہوا بزرگ سمجھے گا، اس کی خدمت اپنے لئے سعادت سمجھے گا. لیکن کوئی شخص کاروبار کو سود سے پاک رکھے، انکم ٹیکس کی چوری نہ کرے، رشوت نہ دے، گھر میں صحیح اسلامی پردہ کو نافذ کرے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا. اپنے ہی بیگانے بن جائیں گے اور وہ اپنے ہی گھر اور اپنی ہی قریبی سوسائٹی میں نکو بن کر رہ جائے گا. اس کا وہ مذاق اڑے گا کہ توبہ ہی بھلی.