نہی عن المنکر کی خصوصی اہمیت

قرآن سے رہنمائی

نبی اکرم  نے قرآن حکیم کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے. یعنی ہر دور میں اس سے انسان کو ہدایت ملتی رہے گی. تاریخ کے مختلف ادوار میں، جیسے جیسے انسانی ذہن اور تمدن کا ارتقاء ہو گا، یہی قرآن انسان کی انگلی پکڑ کر لے چلے گا اور ہر ہر مرحلہ پر ہدایت دے گا. غور کرنے کی بات ہے کہ قرآن مجید میں نہی عن المنکر پراتنا زور کیوں دیا گیا ہے. جب کہ دعوت کا حکم اتنے زور وشور کے ساتھ قرآن مجید میں نہیں ملے گا. آپ کو اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ... یا وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ والی آیات مل جائیں گی. قرآن مجید میں عام مسلمانوں کے لئے تبلیغ کا حکم ملے گا ہی نہیں. وہاں تو تبلیغ کا حکم صرف رسول اللہ  کے لئے آیا ہے یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وہ تو نبی اکرم  نے اسے تمام اہل ایمان کے لئے عام کیا ہے کہ بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً ’’پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت‘‘. البتہ قرآن مجید میں امر بامعروف ونہی عن المنکر پر بہت سی آیات ہیں. بلکہ بعض آیات میں نہی عن المنکر کی خصوصی اہمیت سامنے آتی ہے. ملاحظہ فرمائیے:

۱) سورۃ النحل کی وہ آیت جو اکثر خطباتِ جمعہ کے آخر میں پڑھی جاتی ہے، اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے کہ وہ خود یہ کام کرتا ہے: 

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ۚ (النحل:۹۰)
’’اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی وبے حیائی اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے‘‘.

۲) حضرت لقمان کی نصیحتوں میں اس کا بڑے شدومد سے بیان آیا ہے. اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی نصائح کا قرآن مجید میں ذکر فرما کر ان کو دوام عطا فرما دیا ہے. ان نصائح میں یہ بھی ہے:

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾ (سورہ لقمان)
’’اے میرے پیارے بچے! نماز قائم رکھ، نیکی کا حکم دے اور بدی سے روک. اور اس کام کی انجام دہی میں جو بھی تکلیف ومصیبت آئے اسے برداشت کر. یقینا یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘.

۳) سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ میں نبی اکرم  کی جہاں بہت سی شانیں بیان ہوئی ہیں وہاں یہ بھی ہے 
یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ یعنی خود رسول اللہ  کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ آپ معروف کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں.

۴) بنی اسرائیل پر ایک فردِ قراردادِ جرم تو وہ ہے جو سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع سے 
شروع ہو کر دسویں رکوع پر ختم ہوتی ہے. مزید برآں مختلف مقامات پر ان پر جو تنقیدیں ہوئی ہیں ان میں بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق اس لئے بھی بنے کہ انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا. ان آیات میں یہ بات غور طلب بات ہے کہ پورا زور نہی عن المنکر پر ہے. یعنی بدی کو نہ روکنا اور اس فریضہ کو ترک کر دینا امر بالمعروف کو چھوڑ دینے کے مقابلہ میں زیادہ بڑا جرم ہے. اس لئے کہ منکرات کا فروغ ہی وہ شے ہے جس سے معاشرے میں گندگی اور فساد پھیلتا چلا جاتا ہے اور ماحول اتنا خراب ہو جاتا ہے کہ اس میں امر بالمعروف بے اثر ہوجا تا ہے. چنانچہ سورۃ المائدہ کی آیت ۶۳ میں فرمایا:

لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۶۳﴾ 
’’کیوں نہیں منع کرتے ان کے درویش (صوفیاء) اور علماء ان کو گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے. بہت ہی برے عمل ہیں جو وہ کر رہے ہیں‘‘.

۵) اسی سورہ کی آیت ۷۹ میں فرمایا:

کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۷۹
’’(یہ رہبان واحبار وہ لوگ ہیں کہ) جب ان کے یہاں منکر پر عمل ہو رہا تھا تو وہ اس سے منع نہیں کرتے تھے. کیا ہی بری روش تھی جس پر وہ چل رہے تھے‘‘.

لہذا یہ بھی برابر کے مجرم ہیں اور پاداش میں بھی برابر کے شریک ہوں گے.

۶) سورۃ الاعراف میں (آیت ۱۶۳ سے لے کر ۱۶۶ تک) یہود کے اس قبیلہ کا ذکر ہے جس کا پیشہ ماہی گیری تھا. سبت (ہفتہ) کا دن ان کے ہاں صرف اللہ کی عبادت کے لئے مختص تھا اور اس دن ان پر مچھلی کا شکار کرنا حرام تھا. ان لوگوں کو حکم عدولی اور 
نافرمانی کی عادت تھی. لہذا اللہ کی طرف سے یہ آزمائش آئی کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں کنارے پر آکر سطح آب پر خوب اٹھکیلیاں کرتی تھیں اور باقی دنوں میں غائب رہتی تھیں. ان لوگوں سے صبر نہ ہو سکا. چنانچہ صریح حکم الہٰی کے خلاف حیلے کرنے لگے. ہفتہ سے ایک دن پہلے (جمعہ کے دن) کناروں پر دریا کا پانی کاٹ کر حوض بنا لیتے اور جب مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے بنائے ہوئے حوضوں میں آجاتیں تو نکاسی کا راستہ بند کر دیتے اور اگلے دن اتوار کو جاکر پکڑ لاتے. تاکہ اس حیلہ کی بناء پر ہفتہ کو شکار کرنے کا الزام ان پر نہ آئے. اس حیلہ سازی اور مکاری کے ضمن میں اس قبیلہ کے لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے. ایک تو یہی حیلہ ساز لوگ تھے جو دھڑلّے کے ساتھ اس گناہ میں ملوث تھے.

دوسرے وہ لوگ تھے جو اگرچہ اس حیلہ سازی اور نافرمانی میں شریک نہیں تھے لیکن ان کو اس سے روکتے بھی نہیں تھے. جب کہ تیسرے وہ لوگ تھے جو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑنے سے اور اس حیلہ سازی سے منع کرتے تھے. یعنی نہی عن المنکر کا فریضہ مسلسل ادا کرتے رہتے تھے. درمیانی قسم کے لوگ اس مؤخر الذکر گروہ سے کہتے کہ تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ چاہتا ہے کہ ہلاک کرے یا ان کو عذاب دے، تو وہ جواب میں کہتے مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ’’(ہم انہیں اس لئے نصیحت کرتے ہیں کہ) تمہارے رب کے حضور میں معذرت پیش کر سکیں اور اس لئے بھی کہ شاید وہ لوگ تقویٰ کی روش پر آجائیں، (نافرمانی اور سرکشی سے باز آجائیں)‘‘ ان تینوں گروہوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ ’’ہم نے عذاب سے بچایا ان کو جو روکتے تھے اس برے کام سے‘‘. یعنی درحقیقت نجات کے مستحق وہی لوگ بنتے ہیں جو لوگوں کو بدی سے روکنے کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں. بدی سے صرف خود رکے رہنا نجات کے لئے کفایت نہیں کرے گا. جو لوگوں کو بدی سے روکتے نہیں وہ بھی ان لوگوں کے مانند گردانے جاتے ہیں جو بدی میں ملوث ہیں. ۷) اب قرآن مجید میں دیکھیں کہ امر بامعروف ونہی عن المنکر کے ضمن میں امت مسلمہ کو کیا ہدایات اور احکام ملے ہیں. سورہ آل عمران میں ارشادِ ربانی ہے: 

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ 
’’تم وہ بہترین امت ہو جسے ہم نے نکالاپوری نوعِ انسانی کے لئے. تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو اور تم اللہ پرایمان پختہ رکھو‘‘.

بین الاقوامی سطح پر بحیثیت امت یہی تمہاری اجتماعی ڈیوٹی ہے.

۸) دوسری آیت وہ ہے کہ جس میں اس صورت حال کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ جب امت خود مریض ہو گئی ہو، جب خود اسے اصلاح کی ضرورت ہو تو ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟ اس کا حل سورۃآل عمران کی آیت ۱۰۴ میں پیش کیا گیا ہے:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ 
’’اور چاہئے کہ تم میں ایک جماعت ایسی موجود رہے جو نیکی کی طرف بلاتی رہے، اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برائی سے روکتی رہے. (جولوگ یہ کام کریں گے) وہی فلاح پائیں گے‘‘.

اس آیت مبارکہ سے ہمیں یہ رہنمائی ملی کہ کچھ لوگ تو ایسے ہوں جو جاگیں، ہوش میں آجائیں. وہ مل جل کر ایک ’’امت‘‘ بنیں. یعنی امت کے اندر ایک امت بنائیں، جماعت کے اندر جماعت کی شکل اختیار کریں. بڑی پارٹی تو وہی ہے یعنی امت مسلمہ، چاہے اس کی عظیم ترین اکثریت بے عمل یا فاسق وفاجر ہو، جو بھی کلمہ گو ہے وہ قانوناً امت محمد  میں شامل ہے. لیکن یہاں ہدایت کی جا رہی ہے کہ اس بڑی امت میں سے ایک چھوٹی امت تشکیل پائے جو ان لوگوں پر مشتمل ہو جو خود حق پر 
چلیں اور معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کے لئے حق کی دعوت دیں. اس آیت کے آخری حصے میں حصر کا اسلوب اختیار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کامیابی صرف ان لوگوں کے لئے ہے اور فلاح صرف وہی لوگ پائیں گے جو اس سہ نکاتی پروگرام یعنی دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض کی انجام دہی میں تن، من، دھن کی بازی لگا دیں گے. اگر ہر شخص کلمہ گو ہونے کے ناطے فلاح کا امیدوار بنا بیٹھا رہے تو اس کی قرآن مجید میں کوئی ضمانت موجود نہیں ہے. یہ ضمانت صرف ان کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ ان فرائض کی انجام دہی کے لئے کمر کس لیں اور تکلیفیں جھیلنے کے لئے تیار ہوں.

۹) سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۲ ؍اس سلسلے کی بڑی عظیم اور دلکش آیت ہے. اس آیت مبارکہ میں وہ ظاہری وباطنی اوصاف بیان کئے گئے ہیں جو ایک بندۂ مومن کی سیرت وکردار میں درکار ہیں. ان میں تین تین اوصاف کے تین سیٹ 
(sets) ہیں. ایک طرف ان چھ اوصاف کا بیان ہے جو ایک مومن صادق کی زندگی میں انفرادی سطح پر مطلوب ہیں. دوسری طرف ایک مسلم معاشرہ کا فرد ہونے کے اعتبار سے ایک بندہ مومن پر جو اجتماعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی ادائیگی کے لئے جو تین اوصاف درکار ہیں وہ بیان ہو گئے. اس طرح ایک آیت میں نو اوصاف جمع کر دیئے گئے. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ...
’’(یہ مومنین جنہوں نے جنت کے عوض اپنی جان اور اپنا مال اللہ کے ہاتھ بیچ دیا ہے) اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے ہیں، عبادت گزار ہیں، اس کا شکر ادا کرنے والے، اس کی ثناء کرنے والے ہیں، (اس کے دین کی خاطر) زمین میں گردش کرنے والے ہیں، اس کے حضور میں رکوع اور سجدہ کرنے والے ہیں‘‘. یہ چھ اوصاف وہ ہیں جو انفرادی طور پر ایک بندہ مومن کے لئے مطلوب ہیں. یہ گویا تربیت وتزکیہ کے مراحل ہیں. یہ اوصاف ہیں جنہیں علامہ اقبال نے اپنے اس ایک مصرع میں سمو دیا ہے ؏ با نشّہ درویشی درساز ودمادم زن! یہ چھ اوصاف اگر حاصل ہو گئے تو علامہ اقبال کے بقول اب تم پختہ ہو گئے. اب کیا کرنا ہے؟ ؏ چوں پختہ شوی خود را برسلطنتِ جم زن!

اور اس آیت مبارکہ کی رُو سے اگلا قدم یہ ہو گا:

...الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾ 
’’… نیکی کا حکم دینے والے ہیں، بدی سے روکنے والے ہیں اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں. پس (اے نبی ان) مومنین کو بشارت سنا دیجئے‘‘.

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے کہ ہم اللہ کی حدود کو توڑنے نہیں دیں گے، ہم منکرات کو کسی طور پر برداشت نہیں کریں گے. ان تین آخری اوصاف میں اس مسئلہ کی کلید ہے کہ ایک مسلمان حکومت میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے جو انقلابی جماعت میدان میں آئے گی وہ اسی بنیاد پر آئے گی کہ صرف امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور تحفظ حدود اللہ کے لئے پُرامن اور عدمِ تشدد پر مبنی مظاہرے کرے گی، گھیراؤ کرے گی، دھرنا مار کر بیٹھے گی اور ترکِ موالات کے تمام طور طریقے اختیار کرے گی.
۱۰) اسی سورۃ التوبہ کی آیت ۶۷ اور آیت ۷۱ میں اہل نفاق اور اہل ایمان کی روش اور طرز عمل کا تقابل پیش کیا گیا ہے. چنانچہ آیت ۶۷ میں منافقین کے رویہ کے متعلق فرمایا: 
اَلۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ بَعۡضُہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمُنۡکَرِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمَعۡرُوۡفِ

’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے سے ہی ہیں، (سب کی ایک ہی روش ہے. یہ معاشرہ میں) بری باتوں اور برے کاموں کو ترویج دیتے ہیں، اور خیر اور نیکی کے کاموں کے فورغ کو روکتے ہیں…‘‘

اور آیت ۷۱ میں اہل ایمان کے طرز عمل کے لئے فرمایا کہ : 

وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ... 
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق اور مدد گار ہوتے ہیں، نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں…‘‘

اب ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ اس وقت تمام مسلم معاشروں میں جو لوگ مسند اقتدار پر براجمان ہیں اور جن کے قبضے میں ملک کا نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ اور مملکت کے سارے وسائل ہیں وہ کن خصوصیات کے حامل ہیں. وہ فحاشی کے علمبردار ہیں، بے پردگی اور بے حیائی کے مبلغ ہیں. ہر نوع کی اباحیت 
(۱کو ماننے والے اور اس کے پرچارک ہیں. یہی طبقہ ہے جو شریعت کی حدود اور پابندیوں کو توڑنے کے لئے نہایت منظم طور پر مسلم معاشروں میں مصروفِ عمل ہے. اجتماعی زندگی کے تمام شعبے ان کی ترک تازیوں کی جولان گاہ بنے ہوئے ہیں. یہ لوگ کون ہیں؟ قانوناً مسلمان… لیکن سورۃ التوبہ کی آیت ۶۷ میں انہیں منافقین سے تعبیر کیا گیا ہے. ایک مسلم معاشرہ کے لئے کھلے کافروں، منکروں اور غیر مسلموں سے کہیں زیادہ خطرناک عنصر ان منافقین کا ہوتا ہے. یہ ہمیشہ آستین کے سانپ کا رول ادا کرتے ہیں.

۱۱) سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں تمکن فی الارض یعنی اللہ کی طرف سے حکومت ملنے کے بعد اہل ایمان کے بنیادی فرائض بیان فرما دیئے گئے:

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ (۱) آزاد خیالی ’’وہ لوگ جنہیں ہم زمین میں تمکن واقتدارعطا فرمائیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ کا نظام قائم کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے…‘‘
یہ آیت مبارکہ ایک اسلامی حکومت کے بنیادی واساسی فرائض کے تعین کے لئے نصِّ قطعی کا درجہ رکھتی ہے.

۱۲) نہی عن المنکر کے بارے میں سورہ ھود کی آیت ۱۱۶ اور ۱۱۷ پر بھی غور کر لیجئے: 

فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ یَّنۡہَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَیۡنَا مِنۡہُمۡ ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِیۡہِ وَ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۱۶﴾وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱۷

’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیئے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے. تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں‘‘.

اس آیت میں سابقہ رسولوں کی امتوں کا بیان ہے کہ جب رسولوں کی امتیں بگڑتی رہیں اور دین کی تعلیمات کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہیں تو ایسی امتوں کو ہلاک کر دیا جاتا اور صرف ان تھوڑے سے لوگوں کو بچا لیا جاتا جو نہی عن الفساد کا فریضہ انجام دیتے رہتے تھے. 
مندرجہ بالا متعدد قرآنی آیات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ہمارے دین کے اندر کس قدر عظیم اہمیت کی حامل شے ہے. ان آیات پر غور وفکر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب امتِ محمد  میں دین کے احیاء اور 
دین کو بتمام وکمال قائم کرنے کا مسئلہ آئے گا اور فاسد واستحصالی نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر پورے نظام کو توحید کی بنیادوں پر استوار کرنے کا مرحلہ آئے گا تو درحقیقت اقدام کا یہی راستہ ہو گا کہ ایک منظم اور تربیت یافتہ اسلامی انقلابی جماعت امربالمعروف ونہی عن المنکر اور تحفظِ حدود اللہ کے لئے پُرامن مظاہروں اور ان تمام طریقوں سے حکومتِ وقت کو مجبور کر دے کہ وہ معروفات کی ترویج کرے، منکرات کا قلع قمع کرے اور حدود اللہ کو نافذ کرے. یہ بغاوت کا راستہ نہیں ہے. کسی حکومت کے خلاف کھڑے ہو کر اعلانِ بغاوت کرنے اور قوم کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

اس لئے کہ وہ انقلابی جماعت حکومت کی طالب ہو گی ہی نہیں. حقیقی اسلامی جماعت کبھی بھی اقتدار کی طالب بن کر میدان میں نہیں آتی. اس کا تو صرف یہ مطالبہ ہو گا کہ جب مسلمانوں کا معاشرہ ہے اور مسلمان ہی حکمران ہیں تو دین کو صحیح شکل میں قائم کرو اور اس کے خلاف جو کچھ ہے اسے ختم کرو. نہیں کرتے تو پھر ہم میدان میں موجود ہیں. پھر ہمارے سینے حاضر ہیں، گولیاں چلاؤ… پھر ہمارے سر حاضر ہیں، لاٹھیاں برساؤ… پھر ہم حاضر ہیں کہ دار ورسن (۱کے حربے ہم پر آزماؤ. اس ابتلاء اور امتحان میں ڈٹے رہنا ہے، پیچھے نہیں ہٹنا ہے. کھڑے رہنا ہے. اس موقع پر محمد رسول اللہ  کے اس حکم کو یاد رکھنا ہے جو آپ نے اپنے ساتھیوں کو دیا تھا کہ تمہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جا رہا ہو تو لیٹ جاؤ، مکہ کی گرم اور سنگلاخ زمین پر تمہیں جانور کی طرح گلے میں رسی ڈال کر پیٹھ کے بل گھسیٹا جا رہا ہو تو اُف نہ کرو، ہاتھ مت اٹھاؤ، تمہیں ابھی جوابی کارروائی کی اجازت نہیں ہے. موجودہ دور میں اسلامی انقلاب کا یہی صحیح راستہ ہے اور یہی ’’صبر محض‘‘ اور ’’ پُر تحمل مزاحمت‘‘ ہے. 

احادیثِ شریفہ اور فریضہ ٔ نہی عن المنکر

قرآن کی طرح احادیث رسول  میں بھی اس مسئلے پر راہنمائی کا وافر سامان موجود ہے. صحیح مسلم کی دو حدیثیں پیش ہیں. ان پر غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ  (۱) پھانسی و پھندا اس ضمن میں ہمیں کامل رہنمائی دے گئے ہیں، ہمیں اندھیروں میں ٹھوکریں کھانے کے لئے نہیں چھوڑ گئے. مکان وزمان کے فرق کو ملحوظ رکھ کر حضور  کے ان ارشادات سے مختلف مراحل کے لئے ہدایت ورہنمائی اخذ کی جا سکتی ہے.یہ دوسری بات ہے کہ نیتیں خراب ہوں، عافیت مطلوب ہو، صرف کھانا کمانا پیش نظر ہو، بچوں کی پرورش اور ان کو اعلیٰ تعلیم دلانا ہی زندگی کا مقصود بن گیا ہو تو محرومی ہے… لیکن اگر وفاداری اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول محمد  کے ساتھ ہے، جیسے علامہ اقبال مرحوم نے کہا ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں 

تو واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی وفاداری اور اس کے رسول  کی وفاداری آسان کام نہیں ہے. اس کے لئے ارادہ پیدا ہو جائے تو جمود وتعطل توڑ کر میدان میں آنا پڑے گا. 
پہلی حدیث کے راوی حضرت ابو سعید الخدری ؓ ہیں. اس روایت میں اختصار وایجاز ہے. وہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  نے فرمایا:

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۱
’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اپنے زورِ بازو سے بدل دے. اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے (اسے برا کہے اور اسے بدلنے کی کوشش کرے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا جانے اور اس پر دلی کرب محسوس کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘.

اس کی ہم مضمون دوسری روایت کے آخری ٹکڑے میں یہ الفاظ آئے ہیں. 
وَلَـیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ گویا ان تین حالتوں میں سے اگر کوئی بھی نہیں ہے تو ایسا شخص جان لے کہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان موجود نہیں ہے. (۱) صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان اب خاص طور پر دیکھئے کہ اس حدیث میں امر بالمعروف کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا. وہ حکم اپنی جگہ قرآن مجید میں ہے، اس کی نفی مقصود نہیں ہے. البتہ اس حدیث میں سارا زور نہی عن المنکر پر ہے. پھر نبی اکرم  کے اس ارشاد مبارک کا اسلوب دیکھئے، فرمایا کہ مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ جو شخص بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے ہاتھ سے روکے. اس لئے کہ یہ صیغہ امر ہے، جو وجوب کے لئے آتا ہے. فرمایا فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ اگر طاقت سے روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے. کہے تو سہی کہ اللہ کے بندو! باز آجاؤ، اس راستہ پر مت جاؤ، یہ حرام کا راستہ ہے، یہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ ہے، یہ شیطان کا راستہ ہے. یہ طاغوت کا راستہ ہے. زبان سے کہے. فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ اگر یہ بھی نہیں کر سکتا، اتنا بھی دم نہیں، اتنی بھی استطاعت نہیں ہے یا زبانوں پر تالے ڈال دیئے گئے ہیں تو دل میں بدی کے خلاف شدید نفرت تو رکھے. اس پر دل میں گھٹن اور کڑھن تو محسوس کرے. فرمایا وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ اور یہ یعنی صرف دل سے برا جاننا، دل میں برائیوں پر کرب محسوس کرنا ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے. عربی زبان میں اضعف Superlative Degree ہے. اس سے آگے کا کوئی سوال نہیں ہے. اگر دل میں نفرت بھی نہ رہے تو گویا ایمان ہی گیا. پھر وہی بات ہو گی جو اقبال نے کہی ہے کہ ؎

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

جب یہ احساس بھی ختم ہو گیا تو جان لیجئے کہ دل والا حقیقی ایمان بالکل رخصت ہو گیا!
اس حدیث کے مفہوم کے ضمن میں البتہ ایک احتیاط پیش نظر رکھنی اشد ضروری ہے، لوگ عام طور پر غور نہیں کرتے. اس حدیث میں جو تین مدارج بیان کئے گئے ہیں وہ اس اعتبار سے نہیں ہیں کہ جو شخص نیچے کھڑا ہے وہ نیچے ہی کھڑا رہے، اور جو شخص درمیانی درجہ میں ہے وہ وہیں رہے. بلکہ ایسے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ مسلسل کوشش کرے کہ اگر آج طاقت حاصل نہیں ہے کہ منکر کو طاقت سے روک سکے تو طاقت حاصل کرے. وہ جو علامہ نے کہا 
ہے ؎ 

ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ 
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے!

اگر آپ نہی عن المنکر اعلیٰ اور بلند ترین سطح پر کرنا چاہتے ہیں تو وہ طاقت کے ساتھ ہی ممکن ہے. چنانچہ اگر طاقت موجود نہیں ہے تو طاقت فراہم کیجئے. اس طاقت وقوت کو فراہم کرنے کی سعی وجہد کرنا بھی فرض کے درجہ میں ہو گا. لیکن اگر کوشش کے باوجود اتنی جمعیت فراہم نہیں ہو پا رہی کہ منکرات کے خلاف منظم اور پُرامن طور پر طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے تو بہرحال اس وقت تک زبان سے منکر کو منکر کہنا اور اس کے خلاف زبان سے جہاد کرنا لازم ہے. اگر اس کا بھی امکان نہیں ہے تو دل سے نفرت کرنا لازم ہے. لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان نچلی منزل پر قانع ہو کر بیٹھ جائے. اس لئے کہ یہ وہ نازک ترین مقام ہے کہ اگر ذرا سی بھی چوک ہو گئی اور کسی منکر کے خلاف دل میں نفرت، کراہت اور کرب کے جذبات پیدا نہیں ہوئے تو ایمان کے لالے پڑ جائیں گے. یہ تو وہ آخری حد ہے کہ جس سے باہر قدم نکلتے ہی انسان ایمان کے دائرہ سے خارج ہو جائے گا.

اس حدیث ِ مبارکہ کے اسلوب پر غور وتدبر سے یہ لازمی تقاضا سامنے آتا ہے کہ منکر کو مٹانا، اسے برا کہنا اور اسے برا سمجھ کر اس سے نفرت کرنا ہر مسلمان پر واجب اور فرض ہے. سب سے نچلے درجے پر ہرگز قانع نہیں ہونا چاہئے، بلکہ لازم ہے کہ طاقت حاصل کرنے اور جمعیت فراہم کرنے کے لئے دل وجان سے کوشش کی جائے. لوگوں کو تیار کیا جائے کہ منکرات کو مٹانے اور بدلنے کے لئے اپنی جانیں تک دینے کے لئے آمادہ ہو ں. جب تک طاقت حاصل نہ ہو زبان سے بھی منکر کو منکر کہنے کا عمل جاری رہے. صاحبانِ اقتدار کو نرم وگرم طور پر اس طرف متوجہ کیا جاتا رہے. اس دوران دل میں منکرات کے خلاف نفرت پروان چڑھتی رہے تاکہ جب ان کو طاقت وقوت کے ساتھ بدلنے کا مرحلہ آئے تو جذبات میں منکرات کے خلاف جوش وخروش کا طوفان موجزن ہو. ایسا نہ ہو کہ کوئی مسلمان ماحول کے رنگ میں رنگا جائے. ایسا نہ ہو کہ دل کی نفرت کم ہو اور پھر ماحول اس پر 
چھا جائے. ایسا نہ ہو کہ کل وہ جس کام کو برا کہہ رہا تھا اور برا سمجھ رہا تھا آج وہ خود اس میں ملوث ہو جائے.

علماء ِ بنی اسرائیل کی اس روش کا تذکرہ حدیث میں ملتا ہے. ارشاد رسالت مآب  کا مفہوم یہ ہے کہ یہود کے عالموں کا سب سے بڑا جرم ہی یہ تھا کہ جب ان کے امراء نے غلط کام کرنے شروع کئے تو ابتداء میں تو علماء نے ان کو ٹوکا کہ شریعت کی رو سے یہ برا اور غلط کام ہے، لیکن ان کے ساتھ مجلسی تعلق بھی قائم رکھا اور ان کے ساتھ کھانا پینا ترک نہیں کیا. ان امراء کے دسترخوان کی لذتیں ان کو کھینچ کھینچ کر بلاتی رہیں. نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ بھی اسی رنگ میں رنگے گئے.درحقیقت جب تک انسان ایسے لوگوں کے ساتھ مقاطعہ کی روش اختیار نہ کرے. اس وقت تک نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں پا سکے گا. اس بات کا اقرار ہم روزانہ دعائے قنوت میں بایں الفاظ کرتے ہیں 
نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ یعنی اے اللہ جو بھی تیرا نافرمان ہو گا اور فاجر وفاسق ہو گا ہم اس سے قطع تعلق کریں گے. اسے ہم چھوڑ دیں گے، اس کے ساتھ ہم دلی محبت کا کوئی رشتہ استوار نہیں کریں گے. 

ایک اور حدیث میں حضور  نے فرمایا کہ ’’اگر کوئی شخص کسی فاسق کے ساتھ چلتا ہے تاکہ اسے تقویت پہنچائے تو اللہ کے غضب کی وجہ سے عرشِ الٰہی کانپنے لگتا ہے‘‘.
صحیح مسلم کی دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں. ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ وہ فقہ جسے آج ہم فقہ حنفی کے نام سے جانتے ہیں سلف میں فقہ ابن مسعودؓ کہلاتی تھی. اس لئے کہ اس کے اصل بانی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تھے جن کا شمار کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہوتا تھا. وہ کوفہ میں آباد ہو گئے تھے. ان کے شاگرد کے شاگرد امام ابو حنیفہؒ ہیں. اس حدیث میں نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی کے مسئلہ کو نہایت تشریح اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے:

عَنْ عَبْدِ اللہِ ؓ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ  قَالَ مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْـلِیْ اِلَّا کَانَ لَــہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّونَ وَاَصْحَابٌ یَّاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَیْسَ وَرَآءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ (۱

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی اکرم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی اپنی امت میں بھیجا اس کے لئے اس کی امت سے کچھ لوگ حواری ہوتے ہیں اور کچھ صحابی، جو اس کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑتے تھے اور اس کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی کرتے تھے لیکن پھر ان امتیوں میں ایسے ناخلف پیدا ہوتے تھے جو وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے (یعنی دعویٰ امتی ہونے کا کرتے تھے لیکن عمل امتیوں جیسے نہ تھے) اور کرتے وہ تھے جس کا حکم نہ دیا گیا تھا (یعنی جن امور سے منع کیا گیا تھا ان پر عمل پیرا ہو جاتے تھے ) آپ نے فرمایا میرا جو امتی ایسے لوگوں سے اپنے ہاتھ سے جہاد کرے گا وہ مومن ہو گا. اور جو زبان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہو گا اور جو دل سے جہاد کرے گا وہ مومن ہو گا مگر اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے(یعنی کسی کے دل میں نافرمانی کے خلاف کڑھن اور نفرت نہیں ہے تو پھر اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے)‘‘.

گویا ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ نبی اور اس کے حواریوں اور اصحاب کے انتقال کے بعد رفتہ رفتہ انحطاط، اضمحلال اور زوال شروع ہوجاتا ہے. ہمارے یہاں تین ادوار ہیں جن کو رسول اللہ  نے خیر قرون سے تعبیر فرمایا ہے. یعنی نبی اکرم  اور آپ کے صحابہؓ کا 
(۱) صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان زمانہ. تابعین کا زمانہ اور پھر تبع تابعین کا زمانہ. ایسے ادوار کے گزرنے کے بعد انحطاط واضمحلال اور زوال کی صورت شروع ہوتی ہے. بعد میں آنے والوں کے قول وعمل میں تضاد ہوتا تھا. یعنی کہہ کچھ رہے ہیں، کر کچھ رہے ہیں. زبان پر اسلام کا اقرار ہے، اس کی مداح سرائی ہے، جب کہ عمل میں اسلام اور اس کے شعائر سے بغاوت ہے، سرکشی ہے، اعراض ہے، روگردانی ہے. پھر ان کے افعال واعمال ایسے ہوتے تھے جن کا کوئی حکم، جن کی کوئی سند ان کے دین میں موجود نہیں ہوتی تھی.

حدیث کے آخر میں ایمان کے جو درجات بیان کئے گئے ہیں ان سے ناخلف طبقہ کے خلاف اقدام سے ، جو عموماً مسند اقتدار پر متمکن ہوتا ہے ، نہایت گہرا تعلق ہے. اس حصہ سے ہمیں اقدام کے لئے ہدایت ورہنمائی ملتی ہے. دل سے جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ منکرات اور ان کے فروغ کو دیکھ کر ایک بندۂ مومن دل کی بے کلی میں مبتلا ہوجائے، وہ ہر وقت کڑھے، اس کی نیندیں حرام ہو جائیں، وہ اپنی بے بسی پر بے قرار اور مضطرب رہے، اس کے دل میں نفرت پروان چڑھتی رہے اور اس کا دل اس وقت کی جلد آمد کے لئے بے چین رہے کہ جس وقت وہ ایک منظم اسلامی انقلابی جماعت کے ساتھ مل کر نہی عن المنکر کے لئے میدان میں آسکے اور اپنے جسم وجان اور مال ومنال کی قربانی کا نذرانہ پیش کر سکے. یا اگر اس میں صلاحیت واہلیت ہے تو وہ خود کھڑا ہو اور ایسی انقلابی جماعت قائم کرنے کی سعی وجہد کرے. 

اس حدیث کا آخری حصہ جس کا حوالہ اوپر حضرت ابو سعید الخدری ؓ والی حدیث میں دیا گیا، نہایت لرزا دینے والا ہے. اس کو سن کر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو جانا چاہئے. اس لئے کہ ایسے شخص کے ایمان کی رسول اللہ  نفی فرما رہے ہیں جس کا دل بھی منکرات اور ان کے فروغ کو دیکھ کر بے قرار، مضطر اور بے کل نہیں ہوتا. ایسے شخص کے بارے میں کونین کے مفتی اعظم حضرت محمد رسول اللہ  کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں. 

اب ذرا غور فرمایئے کہ آخرت میں وہ لوگ کس مقام پر کھڑے ہوں گے جو اس دنیا میں قانوناً مسلمان اور مدعی ٔ ایمان تھے اور مسندِ اقتدار پر بیٹھے منکرات کو فروغ دے رہے تھے. ان مدعیانِ ایمان کا کیا حال ہو گا جو ذرائع ابلاغ پر قابض تھے اور ان کو منکرات کی نشرواشاعت کے لئے استعمال کر رہے تھے؟ وہ لوگ کس حالت اور عالم میں ہوں گے جو حکمرانی کے بل بوتے پر منکرات کی سرپرستی کر رہے تھے اور ایسا ماحول اور ایسی فضا پیدا کرنے کے باعث بن رہے تھے جس میں معروفات سسک رہے تھے اور منکرات کے فروغ کے باعث معاشرہ سنڈاس بن رہا تھا.

سورۃ الاعراف میں مذکور اصحابِ سبت کے واقعہ سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جب کسی قوم کی بداعمالیوں کے باعث ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس سے صرف وہ لوگ بچ پاتے ہیں جو دوسروں کو بداعمالیوں سے روکتے رہتے ہیں. اس حقیقت کو نبی اکرم نے ایک تمثیل کے انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ایک جہاز میں کچھ لوگ عرشہ پر سوار ہیں، کچھ لوگ نیچے ہیں یعنی نچلی منزل میں ہیں. نیچے والوں کو جب پانی لینا ہوتا ہے تب وہ اوپر آتے ہیں. اب جو لوگ عرشہ پر مقیم ہیں ان کو تکلیف ہوتی ہے. پانی برتنوں سے چھلک بھی جاتا ہو گا. عرشہ والے ان لوگوں کے اوپر آنے جانے پر ناک بھوں چڑھاتے ہوں گے. نیچے والوں نے سوچا کہ اوپر سے پانی لانے کے کام کو چھوڑو، ہم ان کو کیوں ناراض کریں، ہم نیچے جہاز کے پیندے میں سوراخ کر لیتے ہیں، یہیں سے پانی لے لیا کریں گے. اب اگر اوپر والے ان نیچے والوں کا ہاتھ نہیں پکڑ لیتے تو جہاز ڈوب جائے گا اور اس طرح صرف نیچے والے ہی نہیں، اوپر والے بھی ڈوبیں گے. گویا جو لوگ غلط کام اور بدی سے روکتے نہیں ہیں انجام کار کے اعتبار سے وہ ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں جو بدی میں خود ملوث ہیں. اس مثال سے بھی واضح ہوا کہ اصل میں نہی عن المنکر ہی وہ شے ہے جو انسان کو نجات کا حق دار بناتی ہے.