ان سورتوں (مُسَبِّحات) میں خطاب اُمت ِمسلمہ سے ہے اور اُمت ِمسلمہ کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ایسا سیاسی نظام یعنی نظامِ حکومت قائم کریں جس میں اللہ تعالیٰ کا دین بتمام و کمال قائم ہو جائے. اسی حوالے سے ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے ان دو اسماء (اَلْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) کو با ر بار لایا گیا ہے. اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ ان چھ آیات میں دو مرتبہ یہ الفاظ آ رہے ہیں : لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ ’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے‘‘. یہ الفاظ دوسری آیت میں بھی آئے ہیں اور پھر چھٹی آیت میں بھی. درحقیقت اللہ کی بادشاہت کا یہ تصور ہمارے دور ِزوال میں مسلمانوں کے ذہنوں سے نکل گیا. عقائد اور عبادات کی اہمیت تو پیش نظر رہی لیکن اللہ کی حاکمیت پر مبنی نظام قائم کرنے کا تصور خلافت ِراشدہ کے بعد رفتہ رفتہ ذہنوں سے محو ہوتا گیا. اس لیے کہ جب خلافت ختم ہوئی تو ملوکیت کا آغاز ہو گیا. اُس وقت اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے کچھ کوششیں ہوئیں‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوشش کی‘ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کوشش کی‘ اس کے بعد اس سلسلے میں کئی اور کوششیں ہوئیں‘ لیکن یہ سب کوششیں دُنیوی اعتبار سے ناکام ہو گئیں‘ اگرچہ یہ سب لوگ اپنی جگہ پر اُخروی اعتبار سے کامیاب ہیں. جب یہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو مسلمانوں نے ذہناً تسلیم کر لیا کہ اب یہ حکومت اور ریاست کا معاملہ تو عصبیت کے بل پر چلے گا. کوئی قبائلی عصبیت مضبوط ہے تو وہ قبیلہ آ کر حکومت کر لے گا. کوئی شہنشاہ بابر آئے گا اور ہندوستان کے تخت پر متمکن ہو جائے گا اور اس طرح مغلیہ سلطنت کی بنیادپڑ جائے گی.یہ چیزیں تو قبائلی عصبیت اور قوت کی بنیاد پر تسلیم کر لی گئیں‘ تو اس کے نیچے نیچے اب دین کیا رہ گیا؟ اب دین میں عقائد ہیں‘ عبادات ہیں اور کچھ نکاح و طلاق کے مسائل ہیں‘ اللہ اللہ خیر صلاّ.
دورِ خلافت ِراشدہ کے بعد نظامِ حکومت میں جو تبدیلی آ چکی تھی اس کا اندازہ ذرا صحیح بخاری کی اس حدیث سے کیجیے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں: ’’میں نے اللہ کے رسولﷺ سے علم کے دو برتن حاصل کیے. ان میں سے ایک برتن سے تو میں نے خوب تقسیم کیا‘ لیکن اگر دوسرے برتن کا مُنہ بھی کھول دوں تو میری گردن اڑا دی جائے گی‘‘. اور حضرت ابوہریرہؓ کا تو ۵۹ھ میں انتقال بھی ہو گیا تھا جبکہ ابھی حضرت امیر معاویہؓ کی حکومت تھی. گویا ابھی ننگی ملوکیت کا دَور تو آیا بھی نہیں تھا. حضرت معاویہؓ کے دورِ حکومت کو اگرچہ ہم دورِ خلافت راشدہ میں شامل نہیں سمجھتے‘ لیکن آپؓ بہرحال صحابی ٔ رسولؐ ہیں‘ کاتبِ وحی ہیں‘ اپنی ذات کے اعتبار سے ایک صحابی کی حیثیت سے جو اُن کا منصب ہے اس پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی. اس کے باوجود اُن کے دورِ حکومت میں نظام کی تبدیلی اس درجے آ چکی تھی کہ حضرت ابوہریرہؓ کہہ رہے ہیں کہ اگر میں دوسرے برتن کا مُنہ بھی کھول دوں تو میری گردن اڑا دی جائے گی.
اس کے بعد تو معاملہ یہاں تک پہنچا کہ رفتہ رفتہ اللہ کی حکومت کا تصور ہی مسلمانوں کے ذہن سے نکل گیا اور دین کا تصور صرف یہ رہ گیا کہ اللہ کو ایک مانو‘ اللہ کے لیے نماز پڑھو‘ اللہ کے لیے روزے رکھو‘ اللہ کے لیے حج کرو. یہ ساری چیزیں تو برقرار رہیں مگر اللہ کی حکومت کو قائم کرناہمارے ذہنوں سے نکل گیا. لیکن ان سورتوں میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسماء ’’الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘‘ بار بار لائے جا رہے ہیں. اور ’’الۡحَکِیۡمُ ‘‘ کا دوسرا مفہوم ذہن میں رکھیے تو اس کے معنی حاکم کے ہو جائیں گے. گویا العزیز بھی حاکم‘ الحکیم بھی حاکم. حاکم اور حکیم میں وہی نسبت ہو گی جو عالم اور علیم میں ہے. عالم اسم فاعل ہے ‘ علیم اسی سے صفتِ مشبہ ہے. اسم فاعل میں کوئی فعل وقتی طور پر ہوتا ہے اور اگر وہی فعل کسی کے اندر دائم ہو جائے تو پھر وہ صفت مشبّہ بن جاتا ہے.عالم کسی شے کا جاننے والا اور علیم جس میں یہ صفت مستقل اور پائیدار ہو گئی ہو. اسی طرح حاکم وہ ہے جس کی حکومت قائم ہے‘ اور حکیم جس کی حکومت میں دوام ہے‘ استقلال ہے‘ ہمیشگی ہے‘ پائیداری ہے. تو اس اعتبار سے یہ دونوں الفاظ مترادف ہو جائیں گے اور ’’ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘‘ کا مفہوم ہو گا کہ وہ زبردست ہے اور وہ حاکم حقیقی ہے.