میں اس مسئلہ کو پہلے کچھ مقدمات کے حوالے سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ کیا ہے. جہاں تک خالق کی ایک ہستی کا تعلق ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے‘ یہ فطرتِ انسانی کے اندر نقش ہے. یہ مضمون قرآن مجید میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ: اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ (ابراھیم:۱۰) ’’کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہو سکتا ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے؟‘‘معلوم ہوا کہ خدا کو ماننا کہ کوئی خالق ہستی موجود ہے‘ یہ گویا فطرتِ انسانی کے اندر پہلے سے نقش ہے‘ اسے ہر انسان مانتا ہے چاہے اسے کوئی نام دے دے.
.Call the rose by any name, it will smell as sweet
اس ضمن میں عوامی سطح پر لوگوں کی گمراہی یہ رہی ہے کہ جب وہ خالق کی ہستی کا قیاس کرتے ہیں تو اپنے بڑے سے بڑے انسان کے تصور سے اوپر نہیں جا سکتے. مثلا ً کوئی بہت بڑا شہنشاہ ہے تو اس کے بھی کچھ نائبین سلطنت ہوتے ہیں‘ اس نے انہیں کچھ نہ کچھ اختیارات دیے ہوتے ہیں. اسی طرح بڑی سے بڑی شخصیت کے کچھ لاڈلے اور پیارے ہوتے ہیں جن کی بات وہ ردّ نہیں کر سکتا. یہ تصورات انسان نے اپنے ذہن کے حوالے سے اُس خالق کے ساتھ بھی چسپاں کر دیے ہیں کہ اللہ تو وہی ہے‘ لیکن آلِھَۃ بھی ہیں‘ چھوٹے چھوٹے معبود بھی ہیں. ’’مہادیو‘‘ تو ایک ہی ہے لیکن دیوتا اور دیویاں بھی ہیں جنہیں اس نے اختیارات دے رکھے ہیں‘ اس لیے کچھ بندگی اور ڈنڈوت ان کی بھی کرو تاکہ وہ بھی راضی ہو جائیں. دیوی دیوتاؤں کا تصور اصل میں ایمان بالملائکہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے. یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ ملائکہ نورانی مخلوق ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کرتے ہیں. لیکن ہمیں یہ بتایا گیاہے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے. یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ’’وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملتا ہے‘‘. قرآن مجید میں حضرت جبرائیل ؑ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں :
لَہٗ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡنَا وَ مَا خَلۡفَنَا وَ مَا بَیۡنَ ذٰلِکَ ۚ (مریم : ۶۴)
’’جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے (یعنی ہمارا اپنا وجود) ہر چیز کا مالک وہی ہے‘‘.
تویہ اپنے وجود کے بھی مالک نہیں ہیں‘ یہ بھی اللہ کے اختیارِ مطلق میں ہے. یہ ہے درحقیقت وہ تصور جس نے ہمیں شرک سے بچا لیا‘ ورنہ اتنی برگزیدہ ہستیوں کو صاحب اختیار سمجھا جا سکتا تھا. قرآن حکیم میں حضرت جبر ائیل ؑ کی شان میں تو یہ الفاظ آئے ہیں:
عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ﴿۵﴾ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ (النجم: ۵‘۶)
’’ان (محمدﷺ ) کو زبردست قوت والے (جبرئیل ؑ) نے تعلیم دی ہے‘ جو بڑا صاحب حکمت ہے‘‘.
دوسری جگہ یہ الفاظ آئے ہیں:
اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾ (التکویر)
’’یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر (جبرئیل علیہ السلام ) کا قول ہے جو بڑی طاقت کا مالک ہے‘ عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے‘ اس کا حکم مانا جاتا ہے‘ وہ بااعتمادہے‘‘.
اگر ہمارے پاس ان کے اختیار کے بارے میں واضح تعلیمات نہ ہوتیں تو ہم بھی انہیں دیوتا مان سکتے تھے‘ اورفرشتوں کے بارے میں یہی کچھ ان تمام مذاہب میں ہوا ہے. لیکن ہمارا تصور یہ ہے کہ اگرچہ وہ اس آفاقی کائنات کے کارندے ہیں لیکن ان کا اختیار کوئی نہیں ہے‘ یہ وہی کچھ کرتے ہیں جن کا حکم اللہ کی طرف سے ہوتا ہے. لیکن مشرکین نے یہ تصور قائم کیا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ حضرت مسیحؑ اللہ کے بیٹے ہیں. اس قسم کے تصورات سے شفاعت باطلہ کا تصور پیدا ہوا. چنانچہ اس عوامی سطح پر توحید اور معرفت ربّ کے ضمن میں کرنے کا کام یہ ہے کہ واضح کر دیا جائے کہ حاکم مطلق اللہ ہے اور اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے‘ اُس کی اجازت کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا‘ وہی تنہا معبودِ حقیقی ہے ؎
وہی ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق!
اس سے ذرا بلند تر سطح پر آئیے تو وہی اللہ تمہارا مطلوب و مقصود ہونا چاہیے. ساری محبتیں اس کی محبت کے تابع ہونی چاہئیں. مطلوب اور مقصود کے درجے میں اس کے سوا کوئی نہ ہو. گویا لا الٰہ الاّ اللہ ہی کی تعبیر ہے : لا معبودَ اِلاَّ اللّٰہ‘ لا مقصودَ اِلاَّ اللّٰہ‘ لا مطلوبَ اِلاَّ اللّٰہ اور لا محبوب اِلاَّ اللّٰہ. یہ ہے عوامی سطح پر توحید کا تصور. جو انسان یہاں تک پہنچ گیا اس کی توحید کامل ہو گئی.
ایک اس سے بلند ترسطح ہے جس پر آ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خالق کو تو ہم نے مان لیا لیکن اس خالق اور مخلوق (کائنات) میں نسبت کیا ہے؟ یعنی اسے دوحصوں میں تقسیم کر لیجیے.
۱) خالق نے اس مخلوق کو کیسے پیدا کیا؟
۲) اب خالق و مخلوق کے درمیان کیا ربط ہے؟ جسے فلسفیانہ اصطلاح میں ’’ربط الحادث بالقدیم‘‘ کہا جاتا ہے. اس قدیم (اللہ) اور حادث (کائنات) میں ربط کیا ہے؟
یہ ہے فلسفۂ وجود کا وہ مسئلہ جس کے اعتبار سے مختلف مکاتیب فکر پیدا ہوئے. اس ضمن میں ہمارے ہاں دو بڑے نظریے ’’وحدت الوجود‘‘ اور ’’وحدت الشہود‘‘ مشہور ہیں. لیکن اس سے پہلے جو بڑی گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں اور انسان نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں ان کو سمجھ لیجیے. ایک تصور ہندو فلاسفی میں یہ دیا گیا کہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایسا ہی ربط ہے جیسے ایک بڑھئی میز بنا دیتا ہے‘ لیکن بڑھئی کو میز بنانے کے لیے پہلے لکڑی درکار ہے. یعنی پہلے مادۂ تخلیق موجود ہو گا تب ہی خالق اس سے کوئی چیز بنائے گا. اب خالق تو ہے پرماتما‘ جس نے یہ کائنات تخلیق کی‘ لیکن مادہ بھی پہلے سے موجود تھا. چنانچہ ان کے ہاں مادہ بھی قدیم ہے اور خدا بھی. گویا اب یہ ثنویت ہو گئی کہ خدا اور مادہ (matter) دونوں قدیم ہیں.
اس سے بھی آگے بڑھ کر ان کا ایک اور مکتب ِفکر ہے جو تین کو قدیم مانتا ہے‘ یعنی خدا بھی قدیم‘ مادہ بھی قدیم اور روح بھی قدیم. ظاہر بات ہے کہ یہ تو بدترین شرک ہے‘ ہم اس کے بارے میں مزید گفتگو کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے. یہ ’’تعددِ قدماء‘‘ کے تصورات کہلاتے ہیں.
خالق اور مخلوق کے مابین ربط و تعلق کی ایک دوسری شکل بعض لوگوں نے یہ تجویز کی ہے کہ درحقیقت خدا ہی نے اس کائنات کا روپ دھار لیا ہے‘ جیسے برف پگھل جائے تو پانی بن جاتا ہے .اب آپ کہیں کہ پانی کہاں سے آیا اور برف کہاں گئی؟ تو دراصل برف ہی پانی ہے اور پانی ہی برف ہے .چنانچہ اس نظریے کی رو سے یہ کائنات ہی خدا ہے. جب خدا ہی نے یہ شکل اختیار کر لی ہے تو گویا ہر شے خدا ہے اور ہر شے الوہیت کی حامل ہے.اس سے بڑا شرک اور کیا ہو گا؟ یہ ہمہ اوست یا Pantheism کا نظریہ ہے.
اب اس سے بھی آگے نکل آئیے. اگر یہ کہا جائے کہ خالق و مخلوق کے درمیان ساری نسبتیں جو ہماری عقل میں آ رہی ہیں یہ قابل قبول نہیں ہیں تو پھر ایک ہی وجود ماننا پڑتا ہے جو خالق کا وجود ہے. اس نظریہ کو ’’توحید وجودی‘‘ کہا جاتا ہے. اس کی بہترین تعبیر مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے اپنی کتاب ’’الدین القیم‘‘ میں کی ہے‘ جو اس آیۂ مبارکہ کی بہترین تعبیر ہے ‘ کہ خالق اور مخلوق میں نسبت کو یوں سمجھو کہ کسی شے کا تصور اپنے ذہن میں قائم کرو. فرض کریں آپ نے تاج محل دیکھا ہے‘ اب آپ تاج محل کا تصور اپنے ذہن میں لائیے. آپ کے ذہن میں یہ تصور آپ کی توجہ سے قائم ہے. جب تک آپ کی توجہ مرکوز رہے گی یہ تصور ذہن میں رہے گا‘ جیسے ہی توجہ ہٹے گی اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا‘ وہ ختم ہو جائے گا. اور یہ جو آپ کی ذہنی تخلیق ہے‘ آپ ہی اس کے نیچے بھی ہیں‘ اوپر بھی‘ اوّل بھی اور آخر بھی. اس کا اپنا تو کوئی وجود ہے ہی نہیں‘ وجود تو درحقیقت آپ کا ہے‘ یہ آپ کا ایک تصور ہے جو آپ نے اپنے ذہن کے اندر تخلیق کیا ہے. بالکل یہی تعلق ہے اس کائنات اور خالق کا. یہ کائنات کوئی علیحدہ شے نہیں ہے. گویا اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے. (۲)
اب اسی ’’توحید وجودی‘‘ کی ایک تعبیر شیخ احمد سرہندیؒ نے کی ہے. انہوں نے ایک بڑی پیاری مثال سے واضح کیا ہے کہ یہ کائنات ہمیں نظر تو آ رہی ہے لیکن حقیقت میں اس کا وجود نہیں ہے‘ وجود ایک ہی ہے اور وہ اللہ کا وجود ہے. انہوں نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ آپ ایک لکڑی لے کر اگر اس کے ایک سرے پر کوئی کپڑا باندھ دیں اور مٹی (۲) ’’توحید وجودی‘‘ کی تعبیر کے لیے مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے جو یہ مثال پیش کی ہے ‘ یہ درحقیقت ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کی صحیح اور محتاط ترین تعبیر ہے. (مرتب) کا تیل ڈال کر دیا سلائی سے آگ لگا دیں تو اب ایک مشعل آپ کے ہاتھ میں ہے. اسے ایک دائرے میں تیزی سے حرکت دیجیے تو دیکھنے والے کو ایک آتشیں دائرہ نظر آئے گا‘ جب کہ دائرے کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ؏
ہر چند کہیں کہ ہے ‘ نہیں ہے!
وجود تو صرف اس ایک شعلہ جوالہ کا ہے‘ باقی حرکت کی وجہ سے بہت کچھ نظر آ رہا ہے جو فی الواقع موجود نہیں ہے. اسی کو کہا گیا ہے کہ ؎
کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَہْمٌ اَوْ خَیَالٌ
اَوْ عُکُوْسٌ فِی الْمََرَایَا اَوْ ظِلاَلٌ
یعنی’’ اس کائنات میں جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ حقیقی نہیں ہے .اس کی حقیقت تو بس وہم اور خیال کی ہے یا بس اتنی ہے جیسے سائے ہوتے ہیں یا جیسے آئینہ میں عکس ہوتا ہے‘‘.
وجود تو اُس شے کا ہے جس کا عکس ہے‘ خود عکس کا کوئی وجود نہیں ہے. تو حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے. یہ نظریہ وحدت الشہود ہے. اس میں یہ بات ماننی پڑے گی کہ یہ کائنات جو نظر آ رہی ہے حقیقی وجود کی حامل نہیں ہے. بقول غالبؔ ؎
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے!
تو یہ کائنات درحقیقت اللہ کا تصور ہے‘ جو بڑا ٹھوس تصور ہے‘ جبکہ ہمارا تصور تو ایک ہوائی سا تصور ہوتا ہے. خالق اور مخلوق کے مابین نسبت کی یہ بہترین تعبیر ہو گی.
ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ
اس کائنات کا اوّل بھی‘ آخر بھی‘ ظاہر بھی‘ باطن بھی وہی ہے.
توحید ِوجودی کی ایک دوسری تعبیر بھی ہے‘ جو ابن عربی کی ہے. اور یہ بہت زیادہ دقیق تعبیر ہے‘ اس لیے کہ Pantheism اور ابن عربی کے نظریۂ وحدت الوجود میں بہت باریک فرق ہے ‘جسے عام انسان کے لیے ملحوظ رکھنا آسان نہیں ہے. ابن عربی کا نظریہ یہ ہے کہ خالق اور کائنات کا وجود تو ایک ہی ہے‘ ماہیت کے اعتبار سے کائنات عینِ وجودِ باری ہے‘ لیکن جہاں تعین ہو جاتا ہے وہاں وہ غیر ہو جاتاہے . (۳) جیسے سائنس آج ہمیں بتاتی ہے کہ تمام اجسام atoms کے بنے ہوئے ہیں. atoms سے مالیکیول بنے ہیں اور ان سے مختلف چیزیں وجود میں آئی ہیں. ایٹم کی مزید تقسیم کریں توelectrons اور protons ہیں‘ پھر اس سے بھی چھوٹے photons ہیں. اور حقیقت میں تو کچھ ہے ہی نہیں‘ صرف‘ electric currents ہیں. انہی electric currents نے جو خاص شکل اختیار کی تو وہ شے وجود میں آگئی. آپ کو یہ ہال خالی نظر آ رہا ہے مگر یہ خالی تو نہیں ہے‘ اس میں ہوا ہے‘ جو ہائیڈروجن اور آکسیجن کا ملغوبہ ہے اور اس کے اندر وہ سارے ایٹم لطیف صورت میں موجود ہیں. مختلف اشیاء میں مختلف formations میں ایٹم موجود ہیں. چنانچہ ماہیت کے اعتبار سے اس گھڑی اور عینک میں کوئی فرق نہیں ‘ یہ انہی ایٹموں کی مختلف تراکیب ہیں. لیکن جب ایک خاص فارمولے کے تحتconglomeration of atoms نے یہ شکل اختیار کی تو یہ ایک دوسرے کا غیر ہیں. لہذا جہاں کسی وجود یا کسی ہستی کا تعین آ گیا وہ ذاتِ باری تعالیٰ کا غیر ہے‘ اس کا جزو نہیں ہے ‘لیکن ماہیت وجود مشترک ہے. کل کائنات کے اندر وجود ایک ہی ہے اور وہ ذاتِ باری تعالیٰ کاہے. اس کو کہا گیا ہے ’’وحدت الوجود‘‘ یعنی وجود کا ایک ہونا.
حضرت شیخ احمد سرہندیؒ گیارہویں صدی ہجری کے مجددِ اعظم ہیں جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بارہویں صدی ہجری کے مجددِ اعظم ہیں‘ ان کے مابین قریباً سو (۳) وحدت الوجود کی اس تعبیر کو شیخ ابن عربی کی طرف منسوب کرنے میں غالباً محترم ڈاکٹر صاحبؒ کو تسامح ہوا ہے‘ اس لیے کہ‘ جیسا کہ آگے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ‘ آنجناب نے شیخ ابن عربی کی کتب کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا تھا‘ بلکہ ان کے نظریہ وحدت الوجودکو ثانوی ذرائع سے سمجھا تھا. یہ موقف دراصل بعض دوسرے حکماء کا ہے جو یونانی فلسفہ کے زیر اثر ہیں.
نظریہ وحدت الوجود کے حوالے سے بعض حضرات کی طرف سے محترم ڈاکٹر صاحبؒ پر جو تنقیدکی جا رہی ہے اور جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں‘ ان کے ازالہ کے لیے حافظ محمدزبیرصاحب کے مختصر کتابچے ’’نظریہ وحدت الوجود اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ ‘‘ کا مطالعہ مفیدمطلب ہے. (مرتب) سال کا فرق ہے. شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس ضمن میں جو فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ابن عربی کے نظریۂ وحدت الوجود اور شیخ احمد سرہندیؒ کے نظریۂ وحدت الشہود کے مابین صرف تعبیر کا فرق ہے‘ حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں. اور اسے خود شاہ صاحبؒ نے ’’توحید ِوجودی‘‘ سے تعبیر کیا ہے. یعنی وجودِ حقیقی ایک ہی ہے اور وہ اللہ کا ہے‘ لیکن جہاں کسی شے کا علیحدہ تشخص ہو گیا وہ اللہ کا غیر ہے‘ وہ خدا نہیں ہے. تاہم ماہیت ِوجود خالق اور مخلوق کے درمیان ایک مشترک قدر کی حیثیت رکھتی ہے. یہ ہے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا نظریہ جسے شاہ ولی اللہ ؒ نے ’’توحید وجودی‘‘ سے تعبیر کیا اور اسی کی تعبیر ’’ لا معبودَ الاَّ اللّٰہ‘‘ اور بلند تر سطح پر ’’لامقصودَ اِلاَّ اللّٰہ‘ لا مطلوبَ اِلَّا اللّٰہ اورلا محبوبَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ ہے. مزید اوپر جا کر اسی کی تعبیر ’’لا موجودَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ سے کی جاتی ہے. یعنی اللہ کے سوا وجودِ حقیقی اور کسی کا نہیں‘ وجودِ حقیقی صرف اللہ کا ہے. البتہ جیسے سمندر کے اوپر بننے والی لہریں اگرچہ الگ نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت وہ سمندر ہی کا حصہ ہیں‘ اسی طرح وجودِ بسیط خالق اور مخلوق کے درمیان مشترک ہے‘ البتہ جب کوئی وجودِ معین ہو کر کوئی شکل اختیار کر لیتا ہے تو وہ خالق کا غیر ہوتا ہے. یہاں یہ شے ہمہ اوست اور Pantheism سے الگ ہو جاتی ہے. (۴) اس فرق کو ملحوظ رکھیے‘ اس کے بعد جی میں آئے تو آپ اس نظریے کو اٹھا کر پھینک دیں‘ آپ کو وہ ناقابل قبول نظر آئے تو بالکل ٹھکرا دیں. ہمیں بڑے سے بڑے شخص سے اختلاف کا حق حاصل ہے . اختلاف نہیں کر سکتے تو محمد رسول اللہﷺ سے نہیں کر سکتے‘ باقی ہر شخص سے اختلاف ہو سکتا ہے. البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ جن لوگوں نے اس کو مانا ہے ان کی توہین نہ ہو‘ ان کے بارے میں یہ سوئے ظن نہ ہو کہ (معاذ اللہ) وہ ہمہ اوست اور‘ Pantheism کے قائل (۴) حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کی طرف منسوب مذکورہ بالا تعبیر اور سمندر اور اس کی لہروں کی مثال اصلا ً ڈاکٹر صاحبؒ کا اپنا رجحان نہیں ہے‘ جسے ہمارے دور کے بعض فتنہ پرست اشخاص نے غلط طور پر ڈاکٹر صاحبؒ کی طرف منسوب کیا ہے. نیز سمندر اور اس کے اوپر بننے والی لہروں کی تمثیل سے بھی مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ لہریں حقیقتاً کوئی الگ وجود نہیں رکھتیں بلکہ حقیقی وجود (اس مثال کے اعتبار سے) سمندر ہی کا ہے. (مرتب) ہیں اور وہ مشرک ہو گئے‘ گمراہ ہو گئے.
فلسفہ ٔوجود کے یہ جو دو shades ہیں جن میں وحدت کا معاملہ ہے‘ ان کے ضمن میں ہندوستان کے مکاتب فلسفہ میں شنکر اچاریہ وحدت الوجود کا قائل تھا اور ایک دوسرا فلسفی رامانُج وحدت الشہود کا قائل تھا. فلسفہ وجود کی یہی دو interpretations ہو سکتی ہیں‘ حقیقت میں بات ایک ہی ہے کہ وجود صرف اللہ کا ہے‘ باقی کوئی شے وجودِ حقیقی کی حامل نہیں. یا یہ کہئے کہ ماہیت وجود کے اعتبار سے مخلوق کو خالق کے ساتھ قدرِ مشترک کی حیثیت حاصل ہے‘ لیکن تعین کے اعتبار سے وہ خدا کا غیرہے.