وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ ’’اور تاکہ اللہ یہ ظاہر کر دے کہ کون غیب کے باوجود اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے‘‘. ’’بِالۡغَیۡبِ‘‘ کے بارے میں مجھے مولانا اصلاحی صاحب کی یہ بات پسند ہے کہ یہاں ’’بِ‘‘ظرفیہ ہے. اصل میں یہ بڑی پیاری اور فلسفیانہ بات ہے کہ اللہ غیب میں نہیں ہے‘ غیب میں ہم ہیں. عربی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
اَغِیْبُ وَذُو اللَّطَائِفِ لَا یَغِیْبٗ
وَاَرْجُوہُ رَجَاءً لَا یَخِیْبٗ
’’میں غائب ہو جاتا ہوں ‘وہ اللہ جوذواللطائف ہے وہ تو غائب نہیں ہوتا (وہ تو ہر آن ہر جگہ موجود ہے) اور میں اس سے ایسی امید کا طلب گار ہوں جو ناامیدی میں نہیں بدلتی.‘‘
چنانچہ یہ تو ہماری آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں. ہم غیب میں ہیں‘ وہ غیب میں نہیں ہے. علامہ اقبال کا بڑا پیارا شعر ہے ؎
کرا جوئی؟ چرا در پیچ و تابی؟
کہ او پیداست تو زیر نقابی!
’’تم کس کو تلاش کر رہے ہو؟ کس لیے پیچ و تاب کھا رہے ہو؟ وہ تو سامنے بالکل ظاہر ہے‘ ہاں تم خود محجوب ہو‘ پردے کی اوٹ میں ہو.‘‘
غیب کا پردہ تو تم پر پڑا ہوا ہے. تو بالغیب کا مفہوم ہو گا ’’غیب میں ہوتے ہوئے‘‘ .ہم اللہ کو دیکھ نہیں رہے‘ پھر بھی جو شخص اللہ کے لیے تن من دھن وقف کر دے اس کے لیے اللہ کی طرف سے بڑی شاباش ہے. بعض احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے مباہات کے انداز میں اپنے نیک بندوں کا ذکر کرتا ہے کہ میرے یہ بندے مجھ سے جنت مانگ رہے ہیں‘ حالانکہ انہوں نے جنت کو دیکھا نہیں ہے‘ اور یہ دوزخ سے پناہ مانگ رہے ہیں حالانکہ انہوں نے دوزخ دیکھی نہیں ہے. تو جو شخص غیب میں ہونے کے باوجود اللہ اور اُس کے رسولوں کی مدد کے لیے تیارہے اُس نے جو دیکھا ہے دل کی آنکھ سے دیکھا ہے‘ عقل کی آنکھ سے دیکھا ہے. ظاہر کی آنکھ سے کچھ نہ دیکھنے کے باوجود وہ پکار اٹھتا ہے:
اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام)
غیب کے ضمن میں کسی کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ رسول تو غیب میں نہیں تھے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو رسول اللہﷺ سے غیب میں نہیں تھے. حقیقت یہ ہے کہ صحابہؓ بھی غیب میں تھے‘ اس لیے کہ اُن کے سامنے جو موجود تھے وہ محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب تھے‘ رسول اللہﷺ کی رسالت تو غیب ہی کا معاملہ ہے. کیا کسی نے اپنی آنکھوں سے جبرائیل ؑ کو آتے ہوئے دیکھا تھا؟ جبرائیل ؑ اگر کبھی انسانی شکل میں آئے بھی تھے تو وہ تو گویا ایک انسان تھا جو آیا اور مل کر چلا گیا.درحقیقت رسول کی رسالت بھی غیب کی بات ہی تھی اور اُس سے اس وقت وہ لوگ بھی غیب میں تھے جو سامنے نظر آتے تھے. اسی لیے تو ان کے درمیان منافقین کا ایک طبقہ پیدا ہو گیا تھا جو کہتے تھے کہ ہم ان کی ہر بات کیوں مانیں؟ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں‘ دو پاؤں ہیں‘ البتہ جو قرآن یہ کہتے ہیں کہ ان پر نازل ہوا ‘اس کو ہم مان لیں گے. ہمارے ہاں بھی ’’حسْبُنا کتابُ اللّٰہ‘‘ کے قائلین ’’اہل قرآن‘‘ کا جو فتنہ ہے ‘درحقیقت اس کی جڑیں انہی منافقوں کے ساتھ ملتی ہیں.
تو یہ جان لیجیے کہ اصل میں جو اللہ کی مدد کر رہا ہے وہ اللہ کے رسولؐ کی مدد کر رہا ہے. وہ مدد درحقیقت محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب کی نہیں کر رہا‘ محمد رسول اللہﷺ کی کر رہا ہے‘ اور ظاہر بات ہے ان کی رسالت کا معاملہ غیب کا ہے . وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ ’’تاکہ اللہ دیکھے (یا اللہ ظاہر کر دے) کون ہیں (اس کے وفادار اور صادق الایمان بندے)جوغیب میں ہونے کے باوجود اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں‘‘. جان ہتھیلی پر رکھ کر تلوار کی طاقت ہاتھ میں لے کر باطل نظام کا قلع قمع کرنے کے لیے میدان میں آتے ہیں ‘یا اگر تلوار ہاتھ میں نہیں بھی لیتے تو یک طرفہ جنگ کی صورت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں.
جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ اس دور میں ’’مسلح تصادم‘‘ کے متبادل کے لیے اجتہاد کرنا پڑے گا. اس لیے کہ ایک تو ہمارے حکمران جیسے بھی ہیں‘ بہرحال مسلمان ہیں. دوسرے یہ کہ اب حکومتوں کے پاس بہت بڑے پیمانے پر مسلح افواج (Armed Forces) ہیں جن کا مقابلہ ممکن نہیں. عرب کا حال یہ تھا کہ وہاں کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں تھی اور کوئی سٹینڈنگ آرمیز بھی نہیں‘ لہذا تعداد اور اسلحہ کے اعتبار سے اتنا بڑا فرق نہیں تھا.بدر میں تین سو تیرہ مسلمانوں کے مقابلے میں ایک ہزار کفار آئے تھے. اس طرح ان میں ایک اور تین کی نسبت ہوئی. ہتھیاروں کا فرق لگا لیجیے تو ایک اور دس کی یا ایک اور بیس کی نسبت ہو سکتی ہے.
چلیے ایک اور سو کی نسبت ہو گی‘اس سے توزیادہ نسبت نہیں تھی. لیکن یہاں جاگیرداری‘ سرمایہ داری اور ملوکیت کا جونظام ہے اس کی طاقت کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا. شاہ فہد کی حکومت کو تحفظ دینے کے لیے ان کی فوج بھی ہے‘ پولیس بھی ہے‘ ایئر فورس بھی ہے. مصر میں الاخوان کا مضبوط گڑھ ’’حما‘‘ ایئرفورس کے ہاتھوں تہس نہس ہو گیا تھا. لہذا یہاں اجتہاد کی ضرورت ہے. بہرحال جو بھی جس کا حق ہے وہ ادا کیا جانا چاہیے. میرے نزدیک اس دَور میں ایرانیوں نے اس کی ایک مثال پیش کی ہے کہ دو طرفہ جنگ کے بجائے یک طرفہ جنگ کا اندازاپنایااور گولیاں کھانے کے لیے اپنے سینے کھول دیے. اس ضمن میں ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات ہوئے ہیں کہ ایک جلوس صرف خواتین کا نکلا تھا جو بچوں کو گود میں لیے ہوئے تھیں.ان پر فائرنگ ہوئی تو یہ گولیاں کھا کر شیر خوار بچوں سمیت سڑک پر گر پڑیں.جب معاملہ یہاں تک پہنچا تب شاہ کو وہاں سے تخت و تاج چھوڑ کر اس طرح بھاگنا پڑا کہ ؏
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں!
کیونکہ اب اسے اندیشہ تھا کہ کہیں فوج اچانک مجھ پر الٹ نہ پڑے. اس نے اسی میں عافیت سمجھی کہ اپنی جان سلامت لے کر بھاگ کھڑا ہو. تو یہ ہے اصل میں موجودہ حالات کے اعتبار سے اجتہاد کا معاملہ‘ جسے میں تفصیل سے اپنی کتاب میں درج کر چکا ہوں.