اس حصے کا اصل مضمون اس دوسری آیت میں آ رہا ہے. فرمایا: ثُمَّ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِرُسُلِنَا ’’پھر ہم نے ان کے نقوش قدم پر اپنے بہت سے رسولوں کو اٹھایا‘‘.یعنی حضراتِ نوح‘ ابراہیم علیہما السلام اور اُن کے جو صالح پیرو تھے ان کے نقش قدم پر بہت سے رسولوں کو بھیجا گیا. ’’قفی‘‘ کا مطلب ہے کسی شے کے پیچھے لگنا‘ کسی کی پیروی کرنا. اس ’’ق ف ی‘‘ مادہ سے اردو میں بھی ایک لفظ بنتا ہے ’’قافیہ‘‘ (جمع قوافی) . یہ لفظ شعر کے پیچھے آتا ہے جس کے حوالے سے اشعار میں ایک ردھم قائم ہوتا ہے‘ یکسانیت پیدا ہوتی ہے.
یہ لفظ ’’قَفَّیۡنَا ‘‘ قرآن مجید میں چار مرتبہ آیا ہے جن میں سے دو مقامات تو یہی ہیں. اس مادے سے صرف ایک جگہ یہ لفظ اس طرح آیا ہے: وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ (بنی اسرائیل) ’’اور اُس چیز کے پیچھے مت پڑو جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے. یقینا سماعت‘ بصارت اور عقل ان تمام چیزوں کے بارے میں باز پُرس ہو گی‘‘. ’’وَ لَا تَقۡفُ ‘‘ کا مطلب ہے مت پیچھے لگو‘مت پیچھے پڑو اُن چیزوں کے جن کے لیے تمہارے پاس کوئی واضح علم نہیں ہے. ہم نے تمہیں سماعت‘ بصارت اور عقل کی جو صلاحیتیں دی ہیں اس لیے دی ہیں کہ ان کی رہنمائی کو اختیار کرو. غور و فکر کرو‘ سوچ بچار کرو. پھر دوسری چیز ہدایت ہے جس کے لیے یہ وحی کا سلسلہ ہے. لیکن اس سے ہٹ کر طرح طرح کے اوہام ہیں‘ جیسے ستارہ شناسی اور دست شناسی ہے .یہ چیزیں ہمارے ہاں ’’occult sciences‘‘ کے نام سے مشہور ہیں. اسی طرح ہمارے ہاں علم الاعداد (سائنس آف نمبرز) ہے. اگرچہ ان سب کو سائنس کا نام دے دیا گیا ہے لیکن ان کو occult sciences کہتے ہیں. قرآن کی راہنمائی یہ ہے کہ ا ن کے پیچھے نہ پڑو. درحقیقت سمع و بصر اور عقل کی جو صلاحیتیں دی گئی ہیں یہ اُن کی ناقدری ہے کہ انسان اِن چیزوں کی پیروی کرے‘ ان کے پیچھے پڑے.