میں بہت اچھا مقرر نہیں ہو۔ میں بہت مرتبہ "مییی" بولتا ہوں۔ کبھی کبھار مجھے اپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے جب میں یہ بھول جاتا ہوں بات کیا کر رہا ہوں۔ لیکن میں یہ خواہش نہیں کرتا کہ بہتر مقرر بنوں جیسا کے میں یہ خواہش نہیں کرتا کے بہتر لکھاری بنوں۔ جو میں چاہتا ہوں وہ ہے بہتر خیالات، اور یہ اچھے لکھاری بننے کے زیادہ قریب ہیں نہ کہ اچھا مقرر۔
اچھے خیالات کا مطلب اچھی لکھائی ہے۔ اگر آپ جانتے ہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں، تو آپ ان کو سادہ الفاظ میں بیان کریں گے، اور لوگ آپ کے انداز کو پسند کریں گے۔ تقریر میں یہ بلکل الٹ ہوتا ہے: اچھے خیالات اچھے مقرر کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہوتے ہیں۔
میں نے اس کا نوٹ کچھ سال قبل ایک کانفرنس میں کیا۔ وہاں ایک مقرر مجھ سے بہت بہتر تھا۔ اُس نے ہم سب کو بہت ہنسایا۔ اُس کے مقابلے میں میرا رکنا اور بات کرنا عجیب سا تھا۔ اُس کے بعد میں نے اپنی تقریر کو آن لائن شائع کیا۔ اس وقت میں نے یہ سوچا کہ اُس دوسرے کی تقریر کا متن کیسا ہو گا، پھر مجھے پر عاشکار ہوا کہ اُس نے تو زیادہ کچھ نہیں بولا۔
شاید یہ اُس شخص کو سمجھ ہو تقریر کرنے کے بارے میں زیادہ جانتا ہے، لیکن یہ میرے لیے نئی بات تھی کہ خیالات تقریر میں کس قدر کم اہمیت رکھتے ہیں۔
کچھ سال بعد میں نے ایک مشہور اور اپنے سے بہتر مقرر کی تقریر سنی۔ وہ بہت اچھا تھا۔ تو میں نے سوچا میں اُس پر غور کرتا ہوں، اُس نے ایسا کیسے کیا۔ اُس کے دس جملوں کا جائزہ لیے کے بعد میں نے سوچا "میں ایک اچھا مقرر نہیں بننا چاہتا۔"
اچھے مقرر بننے کے لیے آپ کو اچھے خیالات نہیں بلکے اس سے الٹ جانا پڑتا ہے۔ مثلاََ جب میں تقریر کرتا ہو تو پہلے لکھ لیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ لکھی گئی تقریر سامین کے ساتھ ربط قائم کرنے میں دشورای پیدا کرتی ہے۔ سامین کے توجہ کے لیے آپکو اپنی پوری توجہ اُن کو چاہیے ہوتی ہے، جب آپ پہلے سے لکھی گئی تقریر کو بولتے ہیں تو آپکی توجہ سامین اور تقریر کے مبعین بٹ جاتی ہے، اگر آپ اسے یاد کر لیں تو بھی۔ اگر آپ سامین کے ساتھ ربط قائم کرنا چاہتے ہیں تو تقریر کے چیدا چیدا باتوں کو یاد کر لیں اور مزید تمام باتیں فلبدی بولیں۔ عموممی طور پر سامین کے سامنے آپکو نئی چیزیں سوچنے اور بولنے کو ملتی ہیں، لیکن سوچ یہ خیالات کو اُس طرح نہیں وجود نہیں دیتی جس طرح ایک لکھاری ایک ہی جملے پر بہت سا وقت بیتا دیتا ہے۔
اگر آپ تقریر کو پہلے سے رٹ لیں تو شاید آپ کسی حد تک فل بدی تقریر کے قریب طر آ سکیں اور سامین سے رابط قائم کر سکیں۔ اداکار کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر خیالات اور اس کے پہنچانے کے مبین مقابلہ ہے۔ وہ تمام وقت جو آپ تقریر کی مشق میں لگاتے ہیں وہ آپ اُس کو بہتر کرنے میں لگا سکتے ہیں۔ اداکاروں کو اس پر نہیں سوچنا پڑتا محظ کہ انہوں نے سکرپٹ خود لکھی ہو، لیکن مقرر یہ کرتا ہے۔ میں عموممی طور پر تقریر سے قبل اپنی تقریر کو پرنٹ کر کے اپنے دماغ میں دہراتا ہوں۔ لیکن میں بہت مرتبہ اس میں ترمیم کرتا ہوں۔ میری ہر تقریر کے متن میں جملوں پر کاٹا ہوا ہوتا ہے اور اُس میں ترمیم کی ہوئی ہوتی ہے۔ جو مجھے مزید "مییی" بولنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیونکہ میں نے نئی باتوں کو یاد نہیں کیا ہوتا۔
سامین پسند کرتے ہیں کہ اُن کے ساتھ مزاق کیا جائے اور الفاظ کے پل باندھے جائیں۔ جیسے آپ سامین کی زہانت کو گراتے ہیں، اچھے مقرر کا کام اب زیادہ طر بونگیاں مارنا ہے۔ یہ لکھائی میں بھی عیاں ہے لیکن تقریر میں اس کی مثال نہیں۔ سامین میں ہر کوئی متن پڑھنے والے سے زیادہ احمق ہوتا ہے۔ جیسا کے مقرر لکھئی ہوئی تقریر کو منہ میں پڑھنے میں جتنا وقت صرف کرتا ہے اتنا ہی کوئی سامین میں بولے ہوئے الفاظ کو سوچنے میں صرف کرتا ہے۔ مزید یہ کے سامین کا رویہ ایک دوسرے کے اردگرد کی لوگوں سے متاثر ہوتا ہے اور یہ سفاکانہ ہوتا ہے۔ جیسا کے میوزیک ہلکا نوٹ دیوارں کے ساتھ تیزی سے سفر کرتا ہے بامقابل بہارنی نوٹ کے۔ سامیعن ایک پیدائشی ہجوم کی طرح ہوتے ہیں، ہر اچھا مقرر اس کو استمال کرتا ہے۔ اچھے مقرر کی تقریر پر میرے ہنسے کی ایک وجہ دوسرے لوگوں کا ہسنا تھا۔
تو کیا تقاریر بیکار ہیں؟ یہ بےشک لکھے ہوئے خیالات سے تو کم تر ہیں۔ لیکن تقاریر اس ہی کے لیے اچھی نہیں۔ جب میں تقریر کے لیے جاتا ہوں، یہ اس لیے کہ میں مقرر میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ تقریر سننا ایسا ہی ہے جیسا ہم کسی صدر سے بات چیت کر رہے ہوں، جسے ہر ایک سے بات کرنے کی فرصت نہ ہوں جو اُسے ملنا چاہتے ہیں۔
تقاریر مجھے کچھ کرنے کا جزبہ دیتے ہیں۔ یہ شاید بہت سے مقررین کو حوصلہ افزا مقرر سے جوڑا جاتا ہے۔ شاید یہ ہی عوام میں بات کرنے کا مقصد ہے۔ وہ احساسات جو آپ تقریر سے حاصل کرتے ہو وہ ایک طاقتور قوت ہے۔ میری خوائش ہے کہ یہ قوت بہتری کے لیے استمال کی جا سکے نہ کے برائی کے لیے، لیے مجھے اس بات کا اندازہ نہیں۔