میں یہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب مرحوم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ‘جو اگرچہ معروف تو کچھ دوسرے اعتبارات سے تھے‘ انہوں نے علامہ اقبال کی کتابوں کی شرحیں بھی لکھی ہیں‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں جن لوگوں سے مل سکا ہوں ان میں مجھے اپنے محدود علم کے مطابق فلسفہ‘ تاریخ فلسفہ‘ تاریخ مذاہب اور منطق وغیرہ میں مطالعہ کی وسعت اور گہرائی کے اعتبار سے کوئی دوسرا شخص ان کی ٹکر کا نہیں ملا. انہوں نے ایک روز برسبیل تذکرہ یہ بات کہی کہ نسل ِانسانی کی تاریخ کے بارہ سو برس بڑے اہم اور بہت productive ہیں. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان بارہ سو سال کے دوران انسان جو کچھ سوچ سکتا تھا سوچ چکا اور اس کی سوچ اپنی پختگی کو پہنچ چکی. یہ ہیں چھ سو قبل مسیح سے لے کر چھ سو بعد مسیح تک کے بارہ سو برس‘ جن کے دوران تمام مکتبہ ہائے فکر ‘ تمام مدارسِ فلسفہ اور تمام مذاہب جو بھی پیدا ہونے تھے‘ ہو چکے ‘ اس کے بعد کوئی نیا مذہب اور کوئی نیا فلسفہ وجود میں نہیں آیا. دَورِ حاضر میں یہ سارے جو نام لیے جاتے ہیں اور بڑی بھاری بھرکم اصطلاحات میں مغرب کے جو نئے فلسفے سمجھے جاتے ہیں‘ وہ Logical Positivism ہو یا Existentialism ہو‘ یہ سب نئے لیبلوں سے نئی بوتلوں میں پرانی شرابوں کے سوا کچھ نہیں. انسان جو کچھ بحیثیت انسان سوچ سکتا تھا وہ چھ سو بعد مسیح تک سوچ چکا تھا اور اس کی فکر پختہ ہو چکی تھی.
چشتی صاحب مرحوم سے یہ بات سن کر میرا ذہن فوراً منتقل ہوا کہ اگر یہ حقیقت ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اس کا گہرا تعلق ہے بعثت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے لیے زمانے اور وقت کے تعین کے ساتھ کہ جب انسان سوچ چکا جو کچھ کہ وہ سوچ سکتا تھا‘ سقراط‘ ارسطو اور افلاطون اپنے نظریات دنیا کے سامنے رکھ چکے‘ فلاسفۂ ہند نے عقل کی جو بھی جولانیاں ہو سکتی تھیں وہ دکھا لیں‘فلاسفۂ یونان اور فلاسفۂ چین اور ایران انسان کو جو کچھ دے سکتے تھے دے چکے‘ تب وہ الکتاب اور الہُدیٰ اس دعوے کے ساتھ نازل ہوئی کہ یہ ہدایت تامہ ہے‘ یہ آخری اور مکمل ہدایت ہے جو اَب انسان کو دی جا رہی ہے.اور آپ غور کیجیے‘ اس حقیقت کا اس سے بڑا گہرا تعلق ہے کہ اللہ نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے‘ ازروئے الفاظِ قرآنی : اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحِجْر)’’یقینا ہم نے ہی اس الذّکر (قرآن مجید) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘. سوچئے‘ تورات بھی اللہ ہی کی کتاب تھی‘ اگر اللہ اس کی حفاظت کا ذمہ لیتا تو کیا اس میں تحریف ممکن ہوتی؟بلکہ میں اس کے برعکس یوں کہوں گا کہ اگر قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہ لیا ہوتا تو کیا ہم قرآن مجید کو بخش دیتے؟ کیا اُمت مسلمہ اس میں تحریف نہ کر دیتی؟ کیا معنوی تحریف ہمارے ہاں نہیں ہوئی؟ یہ جو حفاظتِ خصوصی قرآن کو دی گئی اور تورات‘ زبور اور انجیل کو نہ دی گئی‘ اس کا کیا سبب ہے؟ میں کہا کرتا ہوں کہ ان کتابوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اللہ کی جناب میں یہ شکوہ کریں کہ پروردگار! یہ ہم سے سوتیلی بیٹیوں والا معاملہ کیوں ہوا؟ہم بھی تیری کتابیں تھیں‘ ہمیں تو نے تحفظ کیوں نہ دیا؟ تواس کا جواب یہی ہے کہ یہ ابھی عبوری دَور کی ہدایات تھیں ‘جب نسل انسانی ابھی عقل اور شعور کی منزلیں طے کر رہی تھی. اس عبوری دَور کی حفاظت لازمی نہ تھی. ان کو مستقل بنانا اور محفوظ رکھنا ضروری نہ تھا. یوں سمجھئے کہ ایک ہی کتاب ہے جس کے سابقہ ایڈیشن پہلے دیے گئے اور یہ اسی کا کامل اور مکمل آخری ایڈیشن ہے جو محمدٌ رسول اللہﷺ کو دیا گیا.