یہی وجہ ہے کہ سیرتِ طیبہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے اسی قرآن کے ذریعے انزار و تبشیر کا فریضہ سرانجام دیا‘ اسی کے ذریعے تذکیر فرمائی‘ اور اسی کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں اُ مّیین میں سے ایک اُمت تیار فرما دی‘ اسے تربیت و تزکیہ کے مراحل سے گزارا‘ اسے نہ صرف یہ کہ کتاب و شریعت کی تعلیم دی بلکہ کتاب کا ایک بھرپور عملی نمونہ اس کے سامنے پیش کرکے دکھا دیا‘ اور پھر حجۃ الوداع کے موقع پر اُمت سے یہ گواہی لینے کے بعد کہ : ’’اِنَّا نَشْھَدُ اِنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ‘‘ (۱(اے نبی !ہم گواہ ہیں کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا‘ اللہ کی امانت درست طور پر پہنچا دی اور نصح و خیر خواہی کا حق ادا کر دیا.) خطبے کے آخر میں فرمایا: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبِ (۲کہ جو یہاں موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغامِ حق کو پہنچائیں ان تک کہ جو یہاں موجود نہیں.غور کیجیے‘ یہی واحد لائحہ عمل ممکن تھا‘ اس کے سوا کوئی صورت حال قابل عمل نہیں تھی‘ اس لیے کہ نبی اکرم اگر پوری نوعِ انسانی کے لیے رسول ہیں‘ اور بلاشک و شبہ ہیں‘ تو یا تو یہ صورت ہوتی کہ آپؐ کی حیاتِ دُنیوی قیامت تک دراز کر دی جاتی تاکہ آپؐ اپنے فرائض رسالت خود بنفس نفیس ادا فرماتے رہتے‘ پھر جو کوئی آپؐ کا ساتھی بنتا وہ دعوت و تبلیغ کے کام میں آپؐ کا دست و بازو بنتا جاتا‘ آپؐ کے اعوان و انصار بنے‘ آپؐ کے مشن کی تکمیل کے لیے اپنی جانیں دیں اور اپنی جان اور مال اس راہ میں کھپایا. اگر ایسا ہوتا تو یقینا تبلیغ دین کا کام قیامت تک براہِ راست نبی اکرم ہی کی زیرسرکردگی جاری رہتا. لیکن جب نبی اکرم کا وصال ہو گیا تو اب ایک ہی راستہ ممکن تھا کہ وہ اُمت جو آپؐ نے تیار فرما دی‘ اللہ کا پیغام نوعِ انسانی تک پہنچانے کی ذمہ داربنے‘ وہ اسی قرآن کو ہاتھ میں لے کر نکلے اور اس کی ہدایت تامہ سے پورے روئے ارضی کو منور کرے‘ قرآن کی تعلیمات کو عام کرے اور اس کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرے‘ بلکہ اس کا حق ادا کردے. اس کے سوا کوئی صورت نہیں!

اسی حوالے سے خطبہ حجۃ الوداع کا ایک اور جملہ بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے. نبی اکرم نے فرمایا: 
قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ لَنْ تَضِلُّوْا اَبَدًا‘ کِتَابَ اللّٰہِ ’’لوگو! میں چھوڑ کر جا رہا ہوں تمہارے مابین وہ چیز کہ اگر تم نے اس کو تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے‘ اور وہ ہے اللہ کی کتاب!‘‘ غور کیجیے کہ یہاں ’’اعتصام‘‘ کا لفظ آیا ہے.اس کا تعلق جوڑ لیجیے سورۃ الحج کے درس کے ساتھ. وہاںوَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ کے الفاظ وارد ہوئے تھے اور میں نے عرض کیا تھا کہ اعتصام باللہ کی قدرے وضاحت کے لیے میں نے قرآن مجید کے بارے میں نبی اکرم کا یہ قول سنایا تھا کہ : ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ( یہ قرآن ہے اللہ کی مضبوط رسی).یہاں خطبہ حجۃ الوداع میں یہی بات آئی کہ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کہ اے مسلمانو‘ میں تمہارے حوالے کر کے (۱)صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجہ النبیؐ . (۲)صحیح البخاری،کتاب الحج،باب الخطبتہ ایام منی.

جا رہا ہوں وہ کتاب کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے تو جان لیجیے کہ انبیاء کے بعدان کی اُمتیں کتاب کی وارث ہوا کرتی ہیں‘ وراثت کتاب کا مضمون سورۃ الشوریٰ میں بایں الفاظ آیا ہے: وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ ایک شکوے کے سے انداز میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ وہ لوگ یا وہ اُمتیں جو نبیوں کے بعد ان کی کتابوں کی وارث بنتی ہیں وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتی ہیں. کتاب کے وارث ہونے کے ناطے اُمت کا فرضِ منصبی یہ بنتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کو ہاتھ میں لے کر اُٹھ کھڑی ہو اور اس کے نورِ ہدایت سے چہاردانگ عالم کو منور کر دے. اے مسلمانو! اگر تم یہ فرضِ منصبی ادا نہیں کرو گے تو جان لو کہ پھر تمہارا طرزِ عمل وہ ہو گا جو اس سے پہلے یہود اختیار کر چکے ہیں‘ اور جس کی پاداش میں انہیں مغضوب علیہم قرار دیا جا چکا ہے یہاں وہ ربط اب معین ہو گیا. اگلی آیات کے مضامین کا اس سورت کے مرکزی مضمون کے ساتھ درحقیقت یہی ربط ہے.