جدید اصطلاح میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آپﷺ نے مَکّے والوں کا Economic Blockade کر دیا‘ ان کے تجارتی راستوں کو مخدوش بنا کر ان کی معاشی ناکہ بندی کا سامان کر دیا. چنانچہ سیرت کی کتابوں میں یہ حقائق محفوظ ہیں کہ غزوئہ بدر سے قبل آنحضورﷺ نے ان تجارتی راستوں کو مخدوش بنانے کے لئے آٹھ مہمیں روانہ کیں‘ جن میں سے بعض میںآپؐ نے خود بھی شرکت فرمائی. انہی میں سے ایک مہم کے دوران مسلمانوں کے ہاتھوں ایک قرشی کافر مارا بھی گیا ‘ گویا اس معاملے میں پہل مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ہوئی. مَکّے والوں کی معاشی ناکہ بندی کرنا درحقیقت سانپ کو بل سے نکلنے پر مجبور کر دینے کے مترادف تھا. چنانچہ ابوجہل اور اس کے وہ ساتھی جو قریش میں سے Hawks کی قسم کے تھے اور کسی نہ کسی بہانے سے بہرصورت مدینے پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے‘ انہیں اس حوالے سے ایک موقع مل گیا. انہوں نے جس چیز کو بنیاد بنایا وہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے ہمارے تجارتی قافلوں پر حملے شروع کر دیئے ہیں‘ ہمارا ایک آدمی قتل کر دیا ہے اور اب ہمارا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ جو مال و اسباب سے لدا پھدا شام سے واپس آ رہا ہے‘ اسے محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے شدید خطرہ لاحق ہے. ان باتوں کو بنیاد بنا کر کیل کانٹے سے لیس ہو کر ایک ہزار کا لشکر مَکّے سے نکلا. ادھر نبی اکرمﷺ کو بھی خبریں پہنچ رہی تھیں. آپؐ نے اپنے طور پر بھی گرد و پیش کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے اور کفارِ مَکّہ کے ردّعمل کا جائزہ لینے کے لئے خبریں حاصل کرنے کا ایک مؤثر نظام تشکیل دیا ہوا تھا. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپؐ کے لئے تو خبر کا ایک دوسرا اور معتبر ترین ذریعہ وحی ٔ الٰہی کی صورت میں بھی موجود تھا.