اب آیئے اس بات کی طرف کہ وحدت الوجود کے بارے میں میرا کیا موقف ہے. اس ضمن میں پہلی بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سن ۵۶.۱۹۵۵ء میں‘جبکہ میری عمر تینتیس ‘ چونتیس برس تھی‘ میں اس مسئلے پر اپنا غور و فکر مکمل کر کے ایک حتمی رائے تک پہنچ چکا تھا‘ اور وہ حتمی رائے اُس وقت میرے ذہن میں کس انداز سے آئی تھی ‘اسے میں بیان کر رہا ہوں. جہاں تک ہمارے دین کی عملی حیثیت کا تعلق ہے اسے ہم شریعت اور طریقت سے تعبیر کرتے ہیں. شریعت اس دین کے عمل کا ظاہری پہلو ہے اور طریقت اسی کا باطنی پہلو ہے. شریعت (فقہ) بحث کرے گی کہ نماز کے ارکان کیا ہیں‘ اوقات کیا ہیں‘ مختلف نمازوں کی رکعتیں کتنی ہیں‘ ہر رکعت میں ارکان کیا ہیں اور ان کی ترتیب کیا ہے‘ وغیرہ ‘جبکہ اسی نماز کا جو ایک باطنی پہلو مطلوب ہے کہ خشوع وخضوع ہو‘ حضورِ قلب ہو‘ انسان ہمہ تن متوجہ ہو‘ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا ہوا کھڑا ہو‘ رکوع یا سجدہ میں ہے تو بھی پوری شخصیت جھک گئی ہو‘ یہ طریقت کا موضوع ہے. تو یہ جو دین کے عملی پہلو ہیں شریعت اور طریقت (یا ظاہر و باطن) ان دونوں کا تعلق یا ’’ہمہ از اوست‘‘ سے ہے یا ’’ہمہ با اوست‘‘ سے ہے. یعنی ان دونوں پہلوؤں کا تعلق یا تو اس سے ہے کہ سب کائنات اللہ کی ذات سے ہے‘ یا یہ کہ یہ سب سلسلۂ کون و مکان اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے . ’’ہمہ از اوست‘‘ اور ’’ہمہ با اوست‘‘ کے مابین جو فرق ہے وہ میں بعد میں بیان کروں گا. ان کو اس درجہ میں سمجھ لیجیے کہ شریعت کا اوّلین درجہ ہے لَااِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ یعنی لاَ مَعْبُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ. یہاں معبود کو اس کے جامع مفہوم میں لیجیے کہ مطاعِ مطلق اللہ ہے‘ حاکم اللہ ہے ‘اسی کا حکم ماننا ہے اور درحقیقت رسول کا حکم بھی اسی کا حکم ہے‘ اُس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی ہے ‘اس کے بتائے ہوئے حلال و حرام پر قائم رہنا ہے‘ اُسی سے ڈرنا ہے‘ اُسی سے سوال کرنا ہے‘ اُمید اُسی سے رکھنی ہے. پھر یہ کہ رازق وہی ہے. اسی طرح حاجت روا ومشکل کشا وہی ہے . یہ دین کا بالکل بنیادی تصور ہے. تو گویا پہلا قدم ’’لاَ معبودَ الاَّ اللّٰہ‘‘ ہے.
اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَامَحْبُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ. یعنی انسان کی زندگی میں مقصود و مطلوب کی حیثیت صرف اللہ کو حاصل ہو جائے‘ اس کا نصب العین صرف اللہ کی ذات ہو‘ محبوبِ حقیقی صرف اللہ ہو ‘ باقی ساری محبتیں اس کی محبت کے تابع ہو گئی ہوں. یہ طریقت کی آخری منزل ہے. یہ وہ باطنی کیفیت ہے جو مطلوب ہے. اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا کے مصداق انسان یکسو ہو کر اللہ کی ذات کی طرف متوجہ ہو گیا ہو‘ وہی اس کا مطلوب و مقصود اور وہی اس کا محبوب حقیقی بن گیا ہو. ان دونوں کا تعلق یا ہمہ از اوست سے ہے یا ہمہ با اوست سے. لیکن جو حقیقت ہے وہ ہمہ اوست کی وہ تعبیر ہے جو شیخ ابن عربی نے کی ہے‘ یعنی وحدت الوجود.ہمہ اوست اور وحدت الوجود کے درمیان ایک باریک فرق ہے جواگر ملحوظ نہ رہے تو بڑا خطرہ ہے ع ’’ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را! ‘‘ذرا سی اگر بے احتیاطی ہو جائے تو انسان کفر اور شرک میں مبتلا ہوجاتاہے. چنانچہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے. اور ویسے بھی اوّل تو اس حد تک رسائی بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے‘ پھر اگر کوئی پہنچ بھی جائے تو اسے یہ احساس ہضم کرنا بہت مشکل ہے. مجھے سلطان باہو کا وہ مصرعہ یاد آ رہا ہے کہ ع ’’جان پھلن تے آئی ہُو!‘‘ واقعہ یہ ہے کہ جب انسان کو وحدت الوجود کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک ایسی کیفیت محسوس کرتا ہے کہ اس کو ضبط میں لے آنا اور اپنی شخصیت کو اپنے مقام پر برقراررکھنا آسان کام نہیں ہے. پھر یا تووہ ہو گا جو منصور الحلاج اور سرمد کے ساتھ ہوا تھا‘ کہ انہوں نے ’’انا الحق ‘‘ کا نعرہ لگادیا‘ یا ایک اور بڑی پیاری کیفیت ہے جس کا شیخ سعدی نے بڑے خوبصورت الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ ع
آن را کہ خبر شد خبرش بعد نیامد!
کہ ’’جو شخص یہاں تک پہنچ گیا پھر اس کی خبر نہیں ملتی.‘‘ یعنی پھر وہ خاموش ہو جائے گا‘ کیونکہ زبان کھولنے میں خطرہ ہے‘ اندیشہ ہے. اور یہی سبب ہے کہ جب یہ چیزیں کچھ شعراء کے ذریعے سے‘ خاص طور پر حافظ ؔکے ذریعے سے عوام الناس میں آ گئیں تو اس سے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہوئے اور دین و شریعت کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی. پھر ’’مسجد مندر ہکڑو نور‘‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا اور وحدتِ ادیان کا باطل نظریہ وجود میں آیا. اسی فتنہ کے سدباب کے لیے اور اس کا رُخ موڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے شیخ احمد سرہندی ؒ ‘ کو کھڑا کیا ‘ جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار!
اُس وقت برعظیم پاک و ہند میں ملت اسلامیہ اور اُمت محمدؐ ‘ کا تشخص ختم ہو رہا تھا. اور یہ سب کچھ درحقیقت ہمہ اوست اور وحدت الوجود کے مابین باریک فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کے باعث اور ان کا عوام کی سطح پر اشعار کے ذریعے سے آ جانے کے باعث ہوا‘ جس کے خلاف شیخ احمد سرہندیؒ نے علم جہاد بلند کیا. یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے ساتھ علامہ اقبال کو بہت سے اعتبارات سے خصوصی نسبت حاصل ہے. علامہ اقبال نے بھی برعظیم میں مسلم قومیت کے تشخص کو واضح کیا اور واقعہ یہ ہے کہ اگر ان کا فکر و فلسفہ اور ان کی عظیم شخصیت نہ ہوتی تو بیسویں صدی کے آغاز میں وحدتِ ادیان کا جو فلسفہ گاندھی کے ذریعہ بہت شدومد کے ساتھ آیا تھا اس کے آگے بند باندھنا ممکن نہ رہتا. اور تو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی نابغہ شخصیت بھی اس رو میں بہہ گئی تھی. واقعہ یہ ہے کہ اس برعظیم پاک و ہند میں اُس وقت پھر وہی صورت حال پیدا ہو رہی تھی جو تین سو برس پہلے ہوئی تھی کہ جب ’’دین الٰہی‘‘ کی شکل میں ایک نیا دین گھڑ لیا گیا تھا اور دین محمدیؐ کے خاتمہ کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا . اس بار اس فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے علامہ اقبال کو اٹھایا. آپ ایک مفکر اور فلسفی تھے‘ ان کی بات میں وزن تھا‘ ان کا انداز لوگوں کے دل کو بھانے والا تھا. پھر وہی شخص تھا جو پنڈت نہرو سے بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا. ختم نبوت پر ان کی نہرو کے ساتھ بڑی مدلل و مفصل خط و کتابت ہوئی . ظاہرہے کوئی عالم دین تو پنڈت نہرو کے ساتھ بحث و تکرار نہیں کر سکتا تھا. علماء کرام ختم نبوت پر قرآن و حدیث سے تو دلائل دے سکتے تھے‘ لیکن اس کی فلسفیانہ بحث علامہ اقبال کے سوا کسی نے نہیں کی. علامہ اقبال شروع میں حافظؔ کے شدید دشمن رہے اور اس فلسفے کی انہوں نے بڑی شدت کے ساتھ نفی کی.