آگے فرمایا : مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا ’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرضِ حسنہ ؟‘‘ یہاں للکارنے کا اور چیلنج کا انداز ہے کہ کون ہے وہ باہمت آدمی کہ جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے؟ یہ بالکل وہی انداز ہے جو سورۃ الاحزاب میں اختیار کیا گیا : مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾ ’’مؤمنین میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا. ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری پوری کر چکااور کوئی موقع کا انتظار کر رہا ہے ‘اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘.غالب کا یہ شعر درحقیقت اسی اسلوب میں ہے ؎ 

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق؟
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد!

اب دیکھئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس اندازِ کلام سے کیا مراد ہے! اس آیت کے بین السطور درحقیقت یہی بات ہے کہ اللہ کے لیے جان و مال کا لگا دینا‘ کھپا دینا‘ آسان کام نہیں ہے. اس کے لیے تو یقین کامل درکار ہے‘ وہ یقین کامل جس کا منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے. جس نے وہاں سے کسب فیض کیا ہو وہ یہ کام کر سکتا ہے. جیسے کہا جاتا ہے کہ آئو یہ گوئے ہے اور یہ چوگان. یعنی let him prove his worth چنانچہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معاملہ دیکھا کہ انہوں نے دو مرتبہ اپنا سب کچھ لا کر حضور کے سامنے رکھ دیا.اوّل تو وہ مکہ میں ہی اپنا تقریباً سارا سرمایہ ان غلاموں اور کنیزوں کے آزاد کرانے میں لگا چکے تھے جو ایمان لائے تھے.آپؓ نے انہیں آزاد کرانے میں ان کے آقائوں کو منہ مانگی قیمتیں ادا کیں. اور جب حضور کے ساتھ ہجرتِ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو اپنا بچا کچھا سارا مال ساتھ لے لیا اور اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا. آپؓ کے والد ابوقحافہ‘ جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے اور بعد میں ایمان لائے ‘ بینائی سے محروم تھے‘ انہیں جب معلوم ہوا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ)چلے گئے ہیں تو وہ اپنی پوتیوں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہماکے پاس آئے اور پوچھا کہ وہ کچھ چھوڑ کر بھی گیا ہے یا نہیں؟ پوتیوں نے کپڑے میں کچھ کنکر اور پتھر باندھ کر کہا کہ دیکھئے دادا جان! یہ سونے اور چاندی کی ڈلیاں ہیں جو ابا جان ہمارے لیے چھوڑ کر گئے ہیں‘ حالانکہ وہ کنکریوںاور پتھروں کے سوا کچھ نہ تھا.

اور پھر جب سن۹ھ میں غزوئہ تبوک کے لیے مال کے انفاق کا موقع آیا اُس وقت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہگھر میں جھاڑو پھیر کر حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے. یہ وہی موقع ہے جب حضور نے فرمایا: ’’ابوبکرکو جو مقام حاصل ہے وہ نمازوں اور روزوں کی وجہ سے نہیں ‘ ان کا مقام اس شے کی وجہ سے ہے جو اُن کے دل میں ہے‘‘ .وہ درحقیقت یقین محکم تھا جو اُن کے دل میں تھا. اور یہ درحقیقت اللہ کی ذات اور اس کے وعدوں پر یقین ہی ہے جو انسان کو اپنا سب کچھ لگا دینے پر آمادہ کرتا ہے. بصورتِ دیگر تو یہی ہوتا ہے کہ مال سینت سینت کر رکھے جائو‘ جائیدادیں بنائے جائو‘ اپنی اولاد کے لیے خوب مال و دولت چھوڑ کر مرو. البتہ ہر سال عمرہ ضرور کرتے چلو‘ حج پر حج کیے جائو اور اس کی گنتی بڑھاتے جائو. ہمارے ہاں تو نیکی کا تصور بس یہی رہ گیا ہے . اور وہ عمرے اور حج بھی ہو رہے ہیں حرام و حلال کی کمائی سے قطع نظر کہ وہ مال آیا کہاں سے ہے .یا پھر ہمارے ہاں نیکی کا تصور یہ رہ گیا ہے کہ کوئی لنگر کھول کر غریبوں کو کھلا دو‘ کہیں کوئی چندہ دے دو اور بس. جبکہ اصل محنت دنیا بنانے میں ہو رہی ہے. اپنا قیمتی وقت ‘ اپنی جان‘ اپنی صلاحیتیں‘ اپنی ذہانت‘ یہ سب کچھ صرف ہو رہے ہیں صرف دنیا بنانے اور مال جمع کرنے میں. 
ان دو تصورات میں زمین و آسمان کا فرق ہے. ایمان اگر دل میں جاگزیں ہو گا تو یہ تصور لائے گا کہ میرا سب کچھ اللہ کا ہے ‘میں خود اسی کے لیے ہوں: 
اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ ’’یقینا میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے‘‘. انسان اپنے مال میں سے اپنے لیے صرف اتنا رکھے جتنا جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہو‘ اور یہ اپنے آپ کو برقرار رکھنا بھی اللہ کے دین کی جدوجہد کے لیے ہو. فرمایا: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ ’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض‘ تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے.‘‘

ہمارے ہاں تو قرضِ حسنہ کا تصور یہ ہے کہ جو قرض دیا جائے بس صرف وہی واپس لینے کی امید ہو یا وعدہ ہو‘ لیکن اللہ تعالیٰ جس قرضِ حسنہ کا مطالبہ کر رہا ہے وہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے گا.قرضِ حسنہ کے ضمن میں حضور کا یہ معمول تھا کہ آپؐ کبھی کسی سے قرض لیتے تھے تو واپس کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیتے تھے. لیکن واپس کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر کچھ بڑھا دینا یہ ہدیہ کے درجہ کی شے ہے. اگر قرض میں پہلے سے کوئی اضافہ معین ہو تو وہ سود ہے اور حرامِ مطلق ہے. دین میں اس سے بڑی حرام چیز اور کوئی نہیں. عقائد میں شرک اور اعمال میں سود چوٹی کے گناہ ہیں. بہرحال اللہ کا قرضِ حسنہ کچھ اور ہے .جو شخص اللہ کو قرضِ حسنہ دے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسے بڑھاتا اور دوگنا کرتا رہے گا . واضح رہے کہ یہ صرف دوگنا کرنا نہیں‘ بلکہ دوگنا کرتے رہنا ہے. یعنی جو مال تم نے دیا ہے وہ تو واپس ملے گا ہی ‘ ساتھ اضافی طور پر بھی بہت کچھ ملے گا. جیسے سورۃ المزمل کے آخر میں فرمایا : 
تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیۡرًا وَّ اَعۡظَمَ اَجۡرًا ’’تم پائو گے وہ سب کچھ (جو کچھ تم نے دیا ہے)اللہ کے پاس بہت بہتر حالت میں‘ اور بہت بڑھا ہوا (فزوں تر)‘‘. اللہ تعالیٰ نے یہاں ساتھ یہ بھی فرمایا : وَ لَہٗۤ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۚ۱۱﴾ ’’اور اس کے لیے بڑا باعزت (عزت افزائی کرنے والا) اجر ہے‘‘. آیت ۷ میں ’’اجرٌ کبیرٌ‘‘ کے الفاظ آئے تھے‘ یہاں ’’اجرٌ کریمٌ‘‘ فرمایا. قرآن کریم میں اجر کے لیے ان دونوں dimensions کا ذکر ہوتا ہے کہ بہت بڑا اور باعزت اجر. 

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین