یہ وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں میں نے کہا تھا کہ اسے قرآن نے عریاں انداز میں بیان کیا ہے. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو حق بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں‘ کوئی رکاوٹ نہیں. ازروئے الفاظ قرآنی : وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ (الاحزاب:۵۳) ’’اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘‘. عام آدمی سمجھے گا یہ بات کہنے کی نہیں ہے‘ اگر ہے بھی تو دل میں رکھو ‘اس کو زبان پر نہ لائو. لیکن یہاں اچھی طرح بات سمجھا دی گئی ہے کہ دنیا میں نظامِ عدل اجتماعی کو قائم کرنے کا طریق کار کیا ہے؟ اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ آپؐ ‘ کو جو الہدیٰ دی گئی ہے‘ جو کتابِ ہدایت بھی ہے اور معجزہ بھی‘ اس کے ذریعے سے لوگوں کو دعوت دیجیے. اسی ہدایت کی لوگوں میں تبلیغ کیجیے. اس پیغامِ ربانی کو عام کیجیے‘ لوگوں کو ذہناً اور قلباً اس پر مطمئن کیجیے‘ اس کے مضمرات کو کھول کر بیان کیجیے . وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۴﴾ (النحل) ’’(اے محمدﷺ !) ہم نے آپ پر یہ ذکر نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس تعلیم کی تشریح اور وضاحت کریں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہے‘‘.یہ سارے کام کیجیے. جیسا کہ سورۃ الجمعہ میں ہم نبی اکرمﷺ کے اساسی منہجِ عمل کے عناصر چہارگانہ پڑھ چکے ہیں: یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ (آیت ۲) یعنی لوگوں کو اللہ کی آیات سنانا‘ ان کا تزکیہ کرنا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا.
ہمیں پانچویں جماعت میں سب سے پہلا سائنسی تجربہ غالباً یہ کرایا جاتا تھا کہ لوہ چون اور لکڑی کے برادے کو علیحدہ کیسے کیا جائے گا. ہاتھ میں مقناطیس لے کر اس مکسچر پر پھیریئے تو لوہ چون اس کے ساتھ چمٹتا چلا جائے گا اور برادہ باقی رہ جائے گا. بالکل یہی معاملہ اس ’’الہدیٰ‘‘ کا ہے. یہ ہدایت کی طرف کھینچنے والا مقناطیس ہے. اور یہ اسی کو اپنی طرف کھینچے گا جس کی اپنی فطرت کے اندر کسی نہ کسی درجے میں ہدایت موجود ہے.اگر وہ موجود نہیں تو جیسے برادہ میگنٹ کے ساتھ نہیں چمٹتا اسی طرح اس الہدیٰ کے ساتھ وہ ابوجہل نہیں چمٹے گا جس کی فطرت مسخ ہو چکی .ابولہب نہیں چمٹے گا چاہے وہ حقیقی چچا ہے اور محمد رسول اللہﷺ کا ایک دیوار بیچ کا پڑوسی ہے. اس کا حال تو یہ تھا کہ اگر حضورﷺ کے گھر میں ہنڈیا پک رہی ہے تو اس کے اندر بھی اس کے گھر سے غلاظت پھینکی جارہی ہے ‘اور یہ سگاچچا کر رہا تھا جو باپ کی جگہ پر ہوتا ہے‘ لیکن عناد‘ دشمنی‘ شقاق اور حسد کے جذبات کے زیر اثر وہ اندھا بہرا ہو چکا تھا. اس حوالے سے جان لیجیے کہ جس کے اندر صلاحیت ہے وہی اس مقناطیس کے ذریعے کھنچے گا.جو شے حرارت کے لیے اچھے موصل (کنڈکٹر) کا درجہ رکھتی ہے‘ اسی میں حرارت سرایت کرے گی. اسی طرح جو بجلی کے لیے اچھا موصل ہے ‘اسی میں سے الیکٹر ک کرنٹ گزر سکے گا.لیکن بہرحال آپ اس میگنٹ کو پھیلائیں. جتنا بڑا معاشرہ ہے اسی پیمانے پر پھیلائیں گے ‘تب ہی اس میں جو بھی سلیم الفطرت لوگ ہیں وہ چمٹ کر آئیں گے. اگر آپ صرف اپنی کُلھیا میں گڑ پھوڑتے رہیں گے‘ تو آس پاس کے لوگوں کوکیا پتا چلے گا؟ لہٰذا آپ اپنے میدانِ کار کی وسعت کے مطابق اس قرآن کی دعوت کو پھیلایئے‘ عام کیجیے.
پھر یہ کہ یہ دعوتِ قرآنی وقت کی ذہنی سطح کے مطابق ہو. یہ نہ ہو کہ آپ صرف وعظ کہہ رہے ہوں اور آپ کے معاشرے کا جو ذہین عنصر ہے وہ اس کی طرف توجہ ہی نہ دے . آپ جو دعوت دے رہے ہیں اس کے لیے دلائل اوربراہین ہونے چاہئیں. ازروئے الفاظ قرآنی : اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (النحل:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جوبہترین ہو‘‘. قرآن معجزہ بھی ہے‘ قرآن برہان بھی ہے‘ قرآن میں حکمت بھی ہے‘ ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (بنی اسراء یل:۳۹) ’’یہ ہیں وہ حکمت کی باتیں جو تیرے آپؐ کے رب نے آپؐ پر وحی کی ہیں‘‘. آپ اپنے معاشرے کے ذہین عناصر کو متاثر کیجیے‘ تعلیم یافتہ طبقے میں اسے عام کیجیے.قرآن کے وعظ و نصیحت کے ذریعے سے عوام الناس کو کھینچئے.
بہرحال جن کے اندر بھی خیر اور بھلائی ہے ‘صلاحیت ہے‘ وہ کھنچے چلے آئیں گے. لیکن جن کے اندر صلاحیت نہیں ہے‘ وہ نہیں آئیں گے .اور جن کے پیش نظر مفادات ہیں وہ بات کو حق سمجھ کر بھی نہیں آئیں گے‘ جیسے کہ میں پہلے مثال دے چکا ہوں کہ یہود کے علماء سے بڑھ کر کون تھا جو حضورﷺ کو پہچان سکتا تھا؟ قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے : یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءٓ ہُم (البقرۃ:۱۴۶) ’’وہ انہیں اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں‘‘. لیکن انہوں نے آپؐ ‘کو مانا کیوں نہیں؟ اس لیے کہ ان کی چودھراہٹیں تھیں‘ ان کی مسندیں تھیں‘ ان کی حیثیتیں تھیں‘ لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے. لوگ آ آ کر ان سے فتویٰ مانگتے تھے‘ ان سے مسئلے پوچھتے تھے. وہ کتابِ الٰہی کے عالم تھے. لہٰذا اب اگر وہ حضورﷺ کو مان لیتے‘ تو ان کی حیثیت ختم ہو تی تھی. چنانچہ نہیں مانا. اس حوالے سے جان لیجیے کہ مراعات یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ‘ جس کے موجودہ نظامِ باطل کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں‘ اس دعوت پر کان نہیں دھرے گا بلکہ ان کی توکوشش یہ ہو گی کہ انقلابِ اسلامی کا راستہ روکو! ع نظامِ کہنہ کے پاسبانو‘ یہ معرضِ انقلاب میں ہے!! ان کی تو آپس میں جتھہ بندیاں بنیں گی کہ آئو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کھڑے ہو جائو.
چنانچہ اب ایک ہی راستہ ہے کہ جو سلیم الفطرت لوگ آ گئے ہیں‘ ان کو جمع کیا جائے اور ان کا تزکیہ کیا جائے. ان کی نیتیں بھی خالص ہو جائیں‘ کوئی کھوٹ نہ رہے. ان کی شخصیتیں نکھر جائیں. لوگوں کو ان کے کردار کے بارے میںکوئی شک و شبہ نہ رہے. یہ آزمائشوں میں سے گزریں‘ امتحانوں میں سے نکلیں‘ اور کندن بن جائیں. پھر ان کو منظم کرو ‘ آرگنائز کرو اور ان کو بٹ کر کوڑا بنائو. جیسے مختلف دھاگوں اور رسیوں کو بٹ دیں تو کوڑا بنتا ہے. علیحدہ علیحدہ دھاگا کمزور ہوتا ہے‘ اسے جو چاہے توڑ سکتا ہے . لیکن دھاگوں کو بٹ کر رسیاں اور رسیوں کو باہم بٹ کر جو کوڑا بنایا جاتا ہے یہ بہت مضبوط ہوتا ہے. چنانچہ آپ نے یہ جوکوڑا بنایا ہے ‘اب یہ کوڑا باطل کے سرپر دے مارو. یہ ہے اصل میںفلسفہ انقلاب. ا س کے لیے ظاہر بات ہے ٹکرانا پڑے گا. اور ٹکرانے کے لیے جب میدان میں آئو گے تو یَـقْتُلُوْنَ کے ساتھ یُـقْتَلُوْنَ بھی ہو گا.جہاں قتل کرو گے وہاں خود بھی قتل ہو گے. تمہیں کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ تم قتل نہیں ہو گے. یہ گارنٹی تو صحابہ کرام ث کو بھی نہیں دی گئی.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہکو کوئی لوہے کا جسم نہیں دیا گیا تھا کہ برچھا اس کے پار نہیں ہو گا. چنانچہ وحشی کی برچھی حضرت حمزہؓ کو ناف کے قریب لگی اور جسم کے آر پار ہو گئی. جب صحابہ کرام ث کو ایسی کوئی ضمانت نہیں دی گئی تھی تو پھر اورکون ہو گا جسے کوئی ضمانت حاصل ہو یا اللہ کی طرف سے انشورنس ہو؟ نہیں‘بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمادیا:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَـیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَقف (التوبۃ:۱۱۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تو اہل ایمان سے ان کے مال اور ان کی جانیں جنت کے عوض خرید لی ہیں. وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں.‘‘
غزوئہ بدر میں سترقرشی مارے گئے اور صحابہ ث میں سے صرف تیرہ شہید ہوئے. ان کے علاوہ ایک زخمی تھے جو مدینہ واپسی پر راستے میں شہید ہو گئے.لیکن غزوئہ احد میں مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے پانسہ بالکل پلٹ گیا اورستر مسلمان شہید ہو گئے. تو ’’یَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ ‘‘ کامعاملہ تو کرنا پڑے گا‘ انقلاب اس کے بغیر نہیں آتا.انقلاب کے لیے جان بھی دینی پڑے گی اور اس کے لیے طاقت کا استعمال بھی کرنا ہو گا.
دین کے بعض حقائق کو علامہ اقبال (۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۸ئ) نے بڑی خوبصورتی سے اشعار کے قالب میں ڈھال دیا ہے. ان کے یہ دو شعر ملاحظہ کیجیے:
(۱) گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن!
’’اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہا کہ یہ جو میری دنیا ہے کیا یہ تمہارے لیے سازگار ہے؟ (یعنی کیا ا س کا موجودہ نظام تمہیں پسند ہے؟ تم اس پر مطمئن ہو؟) میں نے عرض کیا کہ نہیں‘ یہ میرے لیے سازگار نہیں ہے. اس پر اللہ نے فرمایا کہ پھر اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دو!‘‘
اور اس ’’برہم زن!‘‘ کا طریق کار کیا ہے؟ اسے اقبال نے اگلے شعر میں واضح کر دیا ؎
(۲) با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!
’’پہلے درویشی کے نشے سے سرشار ہو کر مسلسل ریاضت اور تربیت کے مراحل طے کرتے رہو. جب تم اپنے آپ کو پختہ کر لو تو پھر سلطنت جم کے ساتھ ٹکرا جائو!‘‘
پہلا مرحلہ درویشی یعنی دعوت و تبلیغ کا ہو گا. گالیاں کھا کر بھی دعائیں دینی ہوں گی. پتھرائو کے جواب میں بھی پھول پیش کرنے ہوں گے. جو لوگ خون کے پیاسے ہیں انہیں معاف کرنا ہو گا.جیسے کہ اہل طائف کی طرف سے شدید ترین اذیت رسانی کے بعد بھی نبی رحمت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے : اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے. اس لیے کہ یہ جانتے نہیں ہیں‘‘. دعوت کے مرحلے میں تو گویا بدھ مت کے بھکشوئوں والی روش اختیار کرنی پڑے گی. دعوت کے اندر تو التجا بھی ہوتی ہے‘ لجاجت بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے بندو میری بات سنو! در در پر جا رہے ہیں. کسی نے کچھ کہہ دیا‘ کسی نے کچھ کہہ دیا. رسول اللہﷺ طائف میں وہاں کے تینوں سرداروں سے ملے ہیں. ایک نے کہا: اچھا جی آپ کے سوا کوئی نہیں ملا تھا اللہ کو رسول بنانے کے لیے؟ نکل جائو یہاں سے! ایک نے کہا: جائو چلے جائو‘ میں تم سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا. ایک نے کہا :یا تو تم جھوٹے ہو یا سچے ہو ‘اگر جھوٹے ہو تو جھوٹے کو میں منہ نہیں لگاتا اور اگر سچے ہو تو میں کہیں گستاخی کر بیٹھوں گا‘ لہٰذا بہتر ہے تم روانہ ہی ہو جائو. ایسے ایسے زہرمیں بجھے ہوئے جملے محمد رسول اللہﷺ کو سننے پڑے. اور پھر جب وہاں سے واپس روانہ ہوئے تو انہوں نے وہاں کے اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا‘ جنہوں نے محبوبِ ربُّ العالمین ﷺ ‘پر پتھرائو شروع کر دیا. تاک تاک کر ٹخنے کی ہڈی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے. اور اُس وقت صرف ایک ساتھی زید بن حارثہ ص آپﷺ کے ہمراہ تھے.ایک آدمی ایک طرف سے ہی ڈھال بن سکتا ہے. حضرت زید ص حضورﷺ کو بچانے کے لیے‘ آپؐ ‘ کو cover کرنے کے لیے ایک طرف آتے تو اوباش دوسری اطراف سے پتھر مارتے.جسم اطہر لہولہان ہو رہا ہے. پائوں میں آ کر خون جوتوں میں جم گیا ہے. پھر کچھ غشی سی طاری ہو گئی توآپؐ بیٹھ گئے . اس پر ایک غنڈے نے ایک بغل میں ہاتھ ڈالا‘ دوسرے نے دوسری بغل میں‘ اور حضورﷺ سے کہا کہ اٹھو‘ چلو! دعوت کے مرحلے میںیہ نقشہ ہے اللہ کے رسولﷺ کا محبوبِ ربُّ العالمین ﷺ کا سیّد الاوّلین والآخرین ﷺ کا.
رسول اللہﷺ پر ذاتی اعتبار سے ابتلاء اور امتحان کا یہ نقطہ عروج (climax) ہے. شہر سے باہر آ کر آپﷺ ایک پتھر سے ٹیک لگا کر تشریف رکھتے ہیں اور اس موقع پر وہ دعا آپؐ ‘ کی زبانِ مبارک سے نکلتی ہے کہ جس کو پڑھتے‘ سنتے اور سناتے وقت کلیجہ شق ہوتا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاس ِ
’’اے اللہ! کہاں جائوں‘ کہاں فریاد کروں‘ تیری ہی جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں‘ اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل و ذرائع کی کمی کی__ اور لوگوں میں جو رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کی.‘‘
یا ارحم الراحمین! اے تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے!
اِِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بِعَیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ أَمْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ؟
’’اے اللہ! تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا تو نے میرا معاملہ دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں میرے ساتھ کر گزریں؟‘‘
اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ!
’’پروردگار! اگر تیری رضا یہی ہے اور اگر تو ناراض نہیں ہے تو پھر میں بھی راضی ہوں‘ مجھے اس تشدد کی کوئی پروا نہیں ہے.‘‘(ع سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!)
اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ
’’اے ربّ! میں تیرے روئے انور کی ضیاء کی پناہ میں آتا ہوں جس سے ظلمات منور ہو جاتے ہیں.‘‘
اُس وقت ملک الجبال حاضر ہوتا ہے کہ اللہ نے مجھے بھیجا ہے ‘میں پہاڑوں پر مامور فرشتہ ہوں. آپؐ اگر حکم دیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ٹکرا دوں جس کے مابین طائف کی یہ بستی ہے جس میں آپؐکے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے. فرمایا: نہیں‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے.
اب بتایئے کون بدھ مت کا بھکشو درویشی میں اس سے آگے جائے گا؟ اور جبکہ اپنے ساتھی نگاہوں کے سامنے ذبح کیے جا رہے ہیں‘ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہاذبح کی جا رہی ہیں‘ ان کے شوہر حضرت یاسر ص کو ابوجہل نے جس برے طریقے سے سرعام ٹکڑے کر دیا ‘اس پر بھی آپؐ نے اہل ایمان کو مشتعل نہیں ہونے دیا. تشدد و تعذیب کے وقت حضورﷺ ان کے پاس سے گزرتے تو یہ فرماتے: اِصْبِرُوْا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ’’اے یاسر کے گھر والو! صبر کرو‘تمہارے وعدے کی جگہ اللہ کے ہاں جنت ہے‘‘ لیکن ساتھیوں میں سے کسی کو اجازت نہیں دی کہ ابوجہل کی تکہ بوٹی کر دے.اس لیے کہ ابھی مرحلہ درویشی کا ہے ؎
نغمہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی!
ابھی ذرا اپنے جذباتِ انتقام کو تھامے رکھو! ابھی مرحلہ Passive Resistance کا ہے. ایک وقت آئے گا کہ تمہارے ہاتھ کھول دیئے جائیں گے. وہ وقت آنے والا ہے کہ تمہیں اذنِ قتال ملے گا‘ تمہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت ملے گی. لیکن ابھی اپنے ہاتھ باندھے رکھو! پھر وہ وقت آیا کہ اب تلواریں بھی ہیں‘ نیزے بھی ہیں‘ میدان میںآئے ہیں‘ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ کا نقشہ دنیاکے سامنے پیش کیا ہے.اس سارے process کو علامہ اقبال نے دو مصرعوں میں بیان کر دیا ہے ؎ با نشہ درویشی در ساز و دما دم زن!
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!!
پہلا مرحلہ یہ ہو گا کہ درویشی کی روش اختیار کرو‘ درویشی کی خو پختہ کرتے رہو. دعوت و تربیت کے مرحلے میں دعوت دیتے رہو‘ محنت کرتے رہو‘ تربیت اور تزکیہ کرتے رہو اوراس دوران تمام تکلیفیں اور مصیبتیں پورے صبر کے ساتھ جھیلو اور برداشت کرو.ساتھ ساتھ اپنی تنظیم پر توجہ دو‘ ساتھیوں کو منظم کرو اور جب تعداد کے اعتبار سے اور کیفیت و کمیت دونوں اعتبارات سے تیار ہو جائو کہ سیرت بھی پختہ ہو چکی ہو‘ تربیت بھی ہو چکی ہو‘ تزکیہ بھی ہو چکا ہو‘ قول و فعل کا تضاد نہ رہا ہو‘ انسان کا ظاہرو باطن ایک ہو چکا ہو‘ منظم ہو چکے ہوں‘ایک امیر کی دعوت پر کھڑے ہو کر لبیک کہیں اور اپنی جانوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں‘ اور اگر روکنے کا حکم دیا جائے تو رک جائیں‘ تو پھر نظامِ باطل سے ٹکرا جائیں ع ’’چوں پختہ شوی خود را برسلطنت جم زن!‘‘ جب خود کو پختہ کر لو تو اب اپنے آپ کو سلطنت جم پر دے مارو! یہ ہے دو مصرعوں میں پوراطریق انقلاب.
سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں یہ پورا طریق انقلاب دو ٹوک انداز میںبیان فرما دیا گیا ہے کہ ہم نے دلیل اور بیّنہ بھی اتار دی ‘ کتاب بھی نازل کر دی اور میزان بھی اتار دی.کتاب کی دعوت سے لوگ آپ کے قریب آ جائیں گے. لیکن اب ان کو منظم کر کے ایک طاقت بنانا ہے تاکہ نظامِ باطل سے ٹکرا یا جائے. ایسے سرفروش اور ایسے جان فروش تیار کرنے ہیں کہ جو اپنے سر کی اور جان کی بازی کھیلنے کو تیار ہو ں. جیسے سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ (آیت ۲۳)
’’اہل ایمان میں وہ جوان مرد ہیں کہ جو عہد انہوں نے اللہ سے کیا تھا وہ سچا کر دکھایا. پس ان میں سے وہ بھی ہیں جو اپنی نذر پیش کر چکے اور جو باقی ہیں وہ منتظر ہیں کہ کب باری آئے.‘‘
گویا ؎
وبالِ دوش ہے سر جسم ناتواں پہ مگر
لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لیے!
تو یہ ہے وہ آیت مبارکہ جس کے بارے میں میں کہا کرتا ہوں کہ دنیا بھر کے انقلابی لٹریچر میں اس سے زیادہ عریاں انقلابی الفاظ کہیں نہیں ملتے!فرمایا: وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ ’’اور ہم نے لوہا اتارا جس میں قوت ہے جنگ کی‘‘ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ’’اور لوگوں کے لیے کچھ اور فائدے بھی ہیں‘‘ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ’’اور تاکہ اللہ دیکھے کہ کون ہیں وہ (صادق الایمان وفادار بندے) جو غیب میں رہتے ہوئے ‘اللہ اور اس کے رسولوں کی مددکرتے ہیں؟‘‘ ایمان کا دعویٰ تو آسان ہے‘ مگر ؎ یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!