ہمارے ہاں مختلف بدعات کی مختلف وجوہات یا back grounds ہیں. اجتماعی قرآن خوانی آج بہت عام ہے اور اس کو بدعت کہنے والے پر’’ وہابی‘‘ کا ٹھپہ بآسانی لگا دیا جاتا ہے. عوام الناس میں یہ نہایت مقبول ہے اور ہماری اکثریت اسے ثوابِ دارین حاصل کرنے اور ایصالِ ثواب کا ذریعہ سمجھتی ہے. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج سے ایک صدی پہلے اس بدعت کا نام ونشان تک نہ تھا. قرآن خوانی کی محافل میں قرآن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اسے دیکھ کر دلی دکھ ہوتا ہے. قرآن پڑھنے والے اکثر خواتین و حضرات ناظرہ صحیح طور پر پڑھنا نہیں جانتے‘ کچھ لوگ دل ہی دل میں پڑھ رہے ہوتے ہیں‘ کچھ کے صرف لب ہلتے نظر آتے ہیں‘ کچھ افراد ایسے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک ہی سیپارہ دو افراد پڑھ رہے ہوتے ہیں.قرآن کو پارہ پارہ کر کے پڑھا جاتا ہے‘ سورتوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا. بہت سے افراد مل کر ایک قرآن پڑھتے ہیں. پاکستان میں ایسی محفلوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ آج کل ہر محلے میں یہ منعقد ہوتی ہے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کس لیے نازل ہوا تھا؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کے ہم پر مندرجہ ذیل پانچ حقوق ہیں:

۱) اسے مانا جائے. یعنی اس پر ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے.
۲) اسے پڑھا جائے. یعنی اسے صحیح تلفظ اور صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھا جائے تاکہ مفہوم نہ بدلے.
۳) اسے سمجھا جائے. یعنی اس کا ترجمہ پڑھا جائے تاکہ معلوم ہو کہ اس میں کیا لکھا ہے اور پھر اس پر غور و فکر بھی کیاجائے‘ تاکہ احکام کی حکمت معلوم ہو.
۴) اس پر عمل کیا جائے. یعنی اس کو سمجھ لینے کے بعد اس کے مطابق عمل کو بھی درست کیا جائے.
۵) اسے دوسروں تک پہنچایا جائے. یعنی جس خیر کو اپنے لیے لائحہ عمل بنایا ہے دوسروں کو بھی اس کی طرف بلایا جائے.

ہمارے ہاں منعقد ہونے والی قرآن خوانی کی محافل میں ہم پر عائد ہونے والے مندرجہ ذیل پانچ حقوق میں سے کسی ایک کا بھی حق ادا نہیں ہوتا. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی اکرم نے قرآن خوانی کا یہ طریقہ نہیں بتایا اور نہ ہی صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ میں سے کسی سے یہ ثابت ہے تو پھر بعد میں اس طور سے قرآن پڑھنے کا طریقہ عوام الناس میں اتنا مقبول اور عام کیونکر ہو گیا؟

اس کا آغاز ہندوؤں کی ایک رسم سے ہوا ہے جسے’’تیجا‘‘ کہتے ہیں. ہندواپنے مرنے والے کا تیجا کرتے ہیں. ان کے خیال کے مطابق مرنے والے کی روح تیسرے دن چکر لگاتی ہے لہٰذا اس دن باقاعدہ روح کے استقبال کے لیے تیاری ہوتی ہے. لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے‘ ایک تقریب کا ساسماں ہوتا ہے. اپنی مذہبی کتاب میں سے کچھ پڑھا بھی جاتا ہے. جب دو تہذیبیں مل جل کر رہتی ہیں تو لامحالہ ایک دوسرے سے رنگ پکڑتی ہیں. جہاں بہت سے معاملات میں ہندوئوں نے مسلمانوں کے طور طریقے اپنائے وہاں مسلمانوں نے بھی ہندوئوں کے رسوم و رواج سے بہت اثر قبول کیا. ’’تیسرے دن کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے‘‘ کا تصور وہیں سے مسلمانوں میں آگیا اور لفظ ’’تیجا‘‘ کو مشرف باسلام کر کے اسے’’سوئم‘‘ کا نام دے دیا گیا. اس دن کھانے پینے کا اہتمام بھی ہونے لگا اورمردے کی روح کو ثواب پہنچانے کے لیے گٹھلیوں اور چنوں پر کچھ پڑھا جانے لگا. رفتہ رفتہ رسم سوئم نے’’رسم ِقل‘‘ کا نام اختیار کر لیا اور پھر’’قرآن خوانی‘‘ کا لفظ بھی پہلے پہل انہی تقریبات میں سننے میں آیا. جس وقت ان بدعات کا آغاز ہوا بعض علماء نے ہمت سے کام لیتے ہوئے ان کے خلاف آواز بھی بلند کی. خاص طور پر اس ضمن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا بہت اونچا مقام ہے کہ بدعات و رسومات کے خلاف ’’اصلاح الرسوم‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ تصانیف بھی لکھیں.

لیکن پاکستان بننے کے بعد ہمارے بعض علماء بھی مجبور ہو گئے. ہوا یہ کہ بڑے بڑے شہروں میں بڑی بڑی مسجدیں بنائی گئیں. پھر اُن کو آراستہ وپیراستہ کرنے اور قالین وغیرہ بچھانے کے لیے بڑے بڑے فنڈز درکار ہوتے تھے اور ظاہر بات ہے کہ ایسے فنڈز کے حصول کے لیے سیٹھوں کی جانب رجوع کرنا پڑتا تھا. پھر کسی سیٹھ کی طرف سے اگر فرمائش آتی تو انکار کرنا بہت مشکل ہو جاتا تھا. لہٰذا ہمارے بعض علماء اس کمزوری کو خود تسلیم کرتے ہیں کہ مجبوراًہمیں ایسی محافل میں شریک ہونا پڑتا تھا. اگرچہ اس میں تھوڑی سی بہتری تو کی گئی کہ گٹھلیاں اور چنے ختم کر دیے گئے مگر’’قرآن خوانی‘‘ ہونے لگی. جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ دین سے دُوری اور علم کی کمی کے نتیجے میں ظواہر یا رسومات پرتوجہ بڑھ جاتی ہے اور اُن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے. اسی طرح رسم قرآن خوانی میں اضافہ اس طرح ہوا کہ بڑے شہروں میں‘ ماڈرن آبادیوں میں ‘بنگلوں میں رہنے والی خواتین نے اس بدعت کو پہلے اپنایا(اس کے پس پردہ اگرچہ ان کی نیت اچھی تھی‘ مگر چونکہ قرآن اور سنت سے ماخوذ نہیں تھی لہٰذا اچھی نیت سے کیا گیا عمل بھی اگر بدعت ہو تو ضائع چلا جاتا ہے بلکہ باعث سزا بن جاتا ہے) اور اس خیال سے کہ جہاں عورتیں دنیا کے دوسرے دھندے کرتی ہیں اور اپنی تقریبات میں بہت سے غلط کام(ناچ گانا وغیرہ) کرتی ہیں وہاں کچھ نہ کچھ دین و مذہب کا کام بھی ہونا چاہیے. کوئی خیر کی بات ہو‘ کچھ ملنا جلنا بھی ہو جائے‘ قرآن بھی پڑھ لیا جائے‘ تاکہ حصولِ ثواب ہو. ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے بھی بعض اوقات یہ چیزیں ضروری ہو جاتی ہیں‘ لہٰذا اس قسم کی تقریبات مختلف عنوانات سے ہونے لگیں. کہیں آیت کریمہ کا ورد‘ کہیں معین تعداد میں سورۃ یٰس شریف‘ کہیں قرآن خوانی برائے ایصالِ ثواب. اور اب اس پر مستزاد یہ کہ کہیں قرآن خوانی اس عنوان کے تحت کہ نئے گھر میں شفٹ ہوئے ہیں اور کہیں اس وجہ سے کہ بچی کی شادی کی رسومات کے آغاز سے پہلے اللہ کا نام لیا جائے بعنوان قرآن خوانی.

ان محافل میں بظاہر احوال جو افادیت کا پہلو ہے اس میں کوئی شبہ نہیں‘کیونکہ یہ محافل ناچ گانے کی نہیں ہیں بلکہ قرآن پڑھا جا رہا ہے یا آیت کریمہ جیسی عظیم آیت پڑھی جارہی ہے اور خلوصِ نیت سے پڑھی جا رہی ہے‘ جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن کو پڑھنے کا ثواب اس کو بھی ملتا ہے جو اٹک اٹک کر قرآن پڑھتا ہے یا جو پڑھنا نہیں جانتا اور صرف باوضو ہو کر عقیدت سے قرآن کھول کر اُس کی سطروں پر صرف انگلیاں پھیرتا رہتا ہے. پھر کیوں اس معاملے کو بدعت کی لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے؟ ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہو گا اور اس’’کیوں‘‘ کا جواب مندرجہ ذیل تین باتیں سمجھ لینے کے بعد مل جانا چاہیے. 

پہلی بات: ہمارا دین مکمل ہے اور عبادات سے متعلق تمام امور یا حصولِ ثواب کے تمام طریقے ہمیں بتادیے گئے ہیں. اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت ہم پر لازم ہے. عبادات سے متعلق جو بھی نیا طریقہ ہو گا وہ سب بدعت ہے. 

دوسری بات: بدعت کو پہچاننے کے لیے کسوٹی قرآن حکیم‘ سنت ِ رسول  اور سنت ِ صحابہ ؓ ہے. جس چیز کی سند کسی حدیث میں نہ ملے وہ بدعت ہے. 

تیسری بات: نماز پڑھنے کا جو طریقہ ہمیں نبی اکرم  نے سکھایا ہے اس میں ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور نماز اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے. اگر اللہ کا مزید تقرب حاصل کرنے کے لیے ہم تین سجدے کریں تو ہماری نماز ہی باطل ہو جائے گی یا سجدے میں قرآن کی تلاوت شروع کر دیں تو نماز غلط ہو جائے گی. اگرچہ ہم نے اچھے کلمات ہی ادا کیے ہوں لیکن طریقہ سنت کے خلاف ہو جانے سے اللہ کی نافرمانی کے زمرے میں آئے گا. ایسی نماز قطعاً قابل قبول نہ ہو گی. اسی طرح تمام عبادات کا معاملہ ہے. کسی نئی پیدا شدہ بات کے بارے میں اتنا ضرور سوچیں کہ کیا ہمارے دین میں کمی رہ گئی ہے؟ یا نبی اکرم کی تعلیمات میں کمی رہ گئی ہے؟ یا وہ اُمت کو بتانا بھول گئے؟ نعوذ باللہ! دین اسلام کے بارے میں ایسی سوچ انسان کو راہِ راست سے بہت دور لے جاتی ہے. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی متفق علیہ حدیث ہر دم ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ نبی اکرم  نے فرمایا: 

مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ 

’’جس نے ہمارے اس دین کے اندر کوئی نئی چیز نکالی جو اس میں نہیں ہے وہ مردود 
ہے‘‘. (یعنی نکالنے والا بھی مردود ہے اور وہ چیز بھی مردود ہے.)

ایک حدیث مبارکہ ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم  نے فرمایا: 
اِنَّ اللّٰہَ حَجَبَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ حَتّٰی یَدَعَ بِدْعَتَہٗ 


’’اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کی توبہ قبول نہیں کرتا جب تک وہ اپنی بدعت چھوڑ نہ دے.‘‘
علاوہ ازیں مسلم کی ایک روایت کی رو سے بدعتی پر اللہ کی لعنت ہے. یہ حدیث مبارکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. 

موجودہ دَور میں بیشتر بدعات کا تعلق حصولِ ثواب یا ایصالِ ثواب سے ہے. ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ حصولِ ثواب کی نسبت ایصالِ ثواب یا مُردے سے متعلق بدعات تعداد میں بہت زیادہ ہیں. ہمارے دین کی محکم تعلیم جو قرآن و سنت پر مبنی ہے‘ وہ یہ ہے: 

لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ 
(البقرۃ:۲۸۶
یعنی ہر ذی نفس کو اپنے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ روزِ قیامت مل کر رہے گا.

قرآن میں یہ مضمون بارہاآیا ہے. مکی سورتوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے عمل کو درست کرنے کے لیے قیامت کا تذکرہ بتکرار کیا گیا ہے‘ مگر آج جبکہ ہم قرآن کی بنیادی تعلیمات سے دُور ہو چکے ہیں‘ عمل سے فارغ ہیں‘ اگرچہ قیامت کو مانتے ہیں‘ اپنی غلطیوں کا کچھ نہ کچھ احساس بھی رکھتے ہیں‘ اچانک اپنی یا اپنے کسی عزیز کی موت کو قریب دیکھتے ہیں تو ہمارا کمزور ایمان ہمیں احساس دلاتا ہے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہو گئی تو کیا ہو گا؟ لہٰذا اب ہمیں ایصالِ ثواب کی فکر پڑ جاتی ہے. کچھ لوگ اپنے لواحقین کو یہ وصیت کر جاتے ہیں کہ ہمارے لیے اتنے قرآن اور اتنے نوافل ضرور پڑھنا ‘جبکہ اپنی زندگی میں قرآن اور نماز سے غافل رہے. یہی وجہ ہے کہ ایصالِ ثواب کی مد میں ہم نے لاتعداد بدعات کا اضافہ کر لیا ہے. اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ایصالِ ثواب کے متعلق ہمارا دین کیا کہتا ہے اور یہ مسئلہ کس نوعیت کا ہے.

اپنی اس تحریر کے آغاز میں مَیں نے’’ایک ضروری وضاحت‘‘ کے ذیل میں اختلافی مسائل پر مختصراً روشنی ڈالی تھی. ایصالِ ثواب یعنی مردے کو قبر میں ثواب پہنچانا ایک اختلافی مسئلہ ہے. اس کے دو حصے ہیں:

۱) مال کے ذریعے ایصالِ ثواب
۲) بدنی عبادات کے ذریعے ایصالِ ثواب

جہاں تک مال کے ذریعے ایصالِ ثواب ہے‘ یعنی کسی غریب کی مدد کرنا یا کوئی کنواں کھدوانا اور اس کا ثواب مردے کو بخش دینا‘ تو یہ اختلافی مسئلہ نہیں ہے. تقریباً سبھی علماء کے نزدیک مال کے ذریعے ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے. لیکن بدنی عبادات کے ذریعے ایصالِ ثواب ایک اختلافی مسئلہ ہے. یعنی نوافل پڑھ کر بخشنا‘ نفلی حج و عمرے کا ثواب پہنچانا‘ یا قرآن پڑھ کر بخشنا. ہمارے بعض علماء کے نزدیک ان بدنی عبادات کا ثواب مردے کو نہیں پہنچتا‘ جبکہ دوسری طرف بھی بڑے جید علماء ہیں جو بدنی عبادات کے ایصالِ ثواب کے قائل ہیں. لہٰذا آغاز میں کی گئی وضاحت کے حوالے سے میں دوبارہ یہ بات کہوں گی کہ اختلافی معاملات میں ہمیں اپنے ذہن وقلب میں وسعت پیدا کرنی ہو گی. تمام علماء کی آراء معلوم کر کے اور کتاب و سنت کو کھنگال کر خود خلوصِ نیت سے اپنے دل سے بھی فتویٰ لیں. 

ہمارے جو علماء صرف مالی ایصالِ ثواب کے قائل ہیں ان کا موقف ہے کہ چونکہ مالی ایصالِ ثواب میں کچھ فائدہ ناداروں اور غرباء کا بھی ہوتا ہے لہٰذا اس کا ثواب مردے کو پہنچایا جاسکتا ہے‘ جبکہ نفلی عبادات انسان اپنے اُخروی فائدے کے لیے اپنی زندگی میں کرتا ہے‘ اس کی نفلی عبادات سے اس کا اپنا تقویٰ بڑھتا ہے‘ اس کا اپنا رشتہ اللہ سے مضبوط ہوتا ہے‘ دوسروں کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا. وہ اپنے موقف کے استدلال میں آیت: وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾ (النجم) پیش کرتے ہیں اور مستند احادیث کا حوالہ دیتے ہیں. جبکہ وہ علماء جو بدنی ایصالِ ثواب یعنی نفل نماز‘ روزے‘ حج یا قرآن پڑھ کر مردے کو ثواب پہنچانے کے قائل ہیں‘ وہ بھی اگرچہ احادیث مبارکہ سے ہی استدلال کرتے ہیں مگر مستند احادیث کا حوالہ نہیں دیتے. 

بہرحال چونکہ اس ضمن میں وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے لہٰذا اگر کسی کو کسی رائے سے اختلاف ہے تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ اپنی رائے پر عمل کرے! احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے فرض حج(جو کسی عذر کی بنیاد پر نہ کر سکاہو‘ وگرنہ جان بوجھ کر نہ کرنے والے کے بارے میں تو اللہ اور اس کے رسول  کافیصلہ ہے کہ وہ اسلام میں نہیں رہا) یا نفلی نذر مانا ہوا حج ہو تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے حج کریں. اسی طرح فرض روزے بھی جو کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ گئے ہوں میت کی طرف سے رکھے جا سکتے ہیں. وگرنہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے پر تو بہت بڑی وعید ہے‘ کیونکہ ان ارکان پر ہی تو دین کی عمارت کھڑی ہے. زکوٰۃ بھی چونکہ غرباء کا حق ہے لہٰذا اگر کسی کے ذمے یہ حق باقی تھا تو اُس کے مرنے کے بعد اس کی جانب سے ادا کیا جاسکتا ہے. یہی معاملہ قرض کا بھی ہے. ایصالِ ثواب کے ان طریقوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے.