حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب شام میں جہادہو رہا تھا تو مسلمانوں نے یروشلم کا محاصرہ کر لیا‘ لیکن شہر فتح نہیں ہو پا رہا تھا. شہر کی فصیل بہت اونچی اور بڑی مضبوط تھی اور اندر ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی موجود تھیں. اس کافی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا کہ راشن ختم ہو جائے تو لوگ مجبور ہو کر بھوک کے مارے دروازہ کھو لیں. وہاں اُس وقت عیسائیوں کی حکومت تھی.جب محاصرے نے بہت طول کھینچا تو انہی عیسائیوں کی طرف سے یہ بات آئی کہ مسلمانو‘ اگر تم قیامت تک بھی ہمارا محاصرہ کیے رکھو تب بھی یروشلم کو فتح نہیں کر سکتے‘ ہاں ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ بعض مخصوص اوصاف کے حامل ایک درویش بادشاہ کے ہاتھوں یروشلم کو فتح ہونا ہے‘ لیکن ہمیں ان اوصاف کا حامل شخص تم میں سے کوئی نظر نہیں آتا. مسلمان چونکہ کافی عرصے سے شام میں رہ رہے تھے اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘ چنانچہ مسلمان بھی اچھے کپڑے پہنتے تھے اور ان کے اندر دورِ نبوی ؐ کی درویشی کا رنگ نظر نہیں آ رہا تھا‘ حالانکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور ان کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ تھے‘ جنہیں رسول اللہﷺ نے ااَمِینُ ھٰذِہِ الاُمَّۃ قرار دیا تھا. ان کا ذہن منتقل ہوا کہ ہو نہ ہو یہ درویش بادشاہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں. اب حضرت عمر ؓ کی خدمت میں محاذِ جنگ سے درخواست گئی کہ آپ تشریف لے آئیں تو یروشلم بغیر جنگ کے فتح ہو جائے گا. تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک غلام کے ہمراہ بیت المقدس کا وہ تاریخی سفر کیا جو تاریخ انسانی کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے. جب حضرت عمر ؓ وہاں پہنچے تو عیسائی راہبوں نے اپنی کتابوں میں سے نشانیاں دیکھ کر کہا کہ ہاں یہی ہیں وہ درویش بادشاہ! اور یروشلم کے دروازے کھول دیے. اس طرح بغیر کسی خونریزی کے بیت المقدس فتح ہو گیا.
اس کے ضمن میں یہ اہم بات نوٹ کر لیجیے کہ۷۰ء میں رومی جرنیل ٹائیٹس نے یروشلم پر حملہ کیا تھا اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا تھا جو کہ آج تک مسمار پڑا ہوا ہے. ہیکل سلیمانی کی حیثیت یہودیوں کے لیے کعبہ کی ہے جسے منہدم ہوئے ۱۹۲۵ برس پورے ہوگئے ہیں.ٹائیٹس نے نہ صرف ہیکل سلیمانی مسمار کیا بلکہ یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا. چنانچہ اُس وقت سے وہاں یہودیوں کا داخلہ ممنوع رہا. یہاں تک کہ ۶۵۰ء کے قریب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا تو آپؓ نے ان پر یہ کرم فرمایا کہ انہیں وہاں آنے کی اجازت دی. تاہم چونکہ عیسائیوں نے جنگ کیے بغیر پر امن طور پر ہتھیار ڈا ل دیے تھے لہٰذا انہوں نے مصالحت کی شرائط میں یہ شرط رکھوائی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کا حق حاصل نہیں ہو گا‘ وہ یہاں کوئی پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے‘ کوئی مکان نہیں بنا سکیں گے ‘ بس زیارت کریں اور واپس چلے جائیں‘ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں.
یہود کی تاریخ میں یہ ان کا دورِ انتشار (Diaspora) کہلاتا ہے‘ اس لیے کہ جب انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا تو یہ دنیا بھرمیں منتشر ہو گئے ‘ جس کے جہاں سینگ سمائے چلا گیا. چنانچہ کوئی روس کو چلے گئے‘ کوئی یورپ کو چلے گئے‘ کوئی افریقہ چلے گئے‘ کوئی ہندوستان چلے آئے‘ کوئی ایران اور ترکی میں آ کر آباد ہو گئے. اس طرح یہ منتشر طور پر پوری دنیا میں بس گئے‘ لیکن اپنی ارضِ مقدس کی یادانہوں نے اپنے سینوں میں رکھی. ان کا یہ دورِ انتشار ۱۹۱۷ء میں بایں معنیٰ ختم ہوا کہ اعلانِ بالفور کے نتیجے میں انہیں وہاں آباد ہونے کا حق دیا گیا ‘ورنہ سلطنت عثمانیہ نے اپنے تمام تر زوال کے باوجود حضرت عمر ؓ کے ساتھ ہونے والے عیسائیوں کے معاہدے کا پوری طرح احترام کیا. یہودیوں نے سلطان عبد الحمید ثانی کو بڑی سے بڑی رشوت پیش کر کے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی جائے‘ مگر انہیں اس کی اجازت نہیں مل سکی. لیکن پھر ’’واسپ‘‘ (White Anglo Saxon Protestants) نے۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے ذریعے ان پر عائد پابندی کو ختم کروایا. اُس وقت برطانیہ سپریم پاور تھی اور اس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ لہٰذا کون تھا جو اعلانِ بالفور کے آگے رکاوٹ بن سکتا. چنانچہ اُس وقت سے انہیں یہاں آباد ہونے کی اجازت حاصل ہو گئی.
بہر حال میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ آپ کو اس حوالے سے سنایا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کرتے وقت یہ شرط عیسائیوں کی طرف سے رکھوائی گئی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی. یہ ان کے آپس کے بیر کا معاملہ تھا.قرآن حکیم میں بھی ان کے آپس کے بیر کا ذکر آیا ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت۱۱۳کے الفاظ ہیں:
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ
یعنی ’’یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کسی بنیاد پر نہیں ہیں‘ حالانکہ وہ سب(ایک ہی) کتاب پڑھتے ہیں‘‘. یہود و نصاریٰ ایک ہی کتاب کے پڑھنے والے ہیں‘ تورات کو وہ بھی مانتے ہیں یہ بھی مانتے ہیں. اس کے باوجود یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کی کوئی حقیقت نہیں‘ یہ بے بنیاد ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حقیقت نہیں‘ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں. تو ان کے درمیان جو دشمنی اور بیر چلا آ رہا تھا یہ اسی کا ایک مظہر ہے کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کے وقت یہ شرط رکھوائی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی.