اس معنی میں یہ سمجھ لیجیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں قرآن حکیم میں جو یہ چار الفاظ دو مقامات پر آئے ہیں ان کا مفہوم کیا ہے. سورۃ المائدہ کے الفاظ ہیں:
اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ۚ (آیت۱۱۰)
یعنی’’ اے مسیحؑ یاد کرو جبکہ میں نے تمہیں سکھائی کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل‘‘. اور سورہ آل عمران میں الفاظ آئے ہیں:
وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَالاِْنْجِیْلَ
یعنی ’’اور اسے اللہ سکھائے گا کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل‘‘.دونوں مقامات پر بعینہٖ وہی چار الفاظ آئے ہیں اور ان کے درمیان بظاہر’’واو‘‘ آیا ہے جسے عام طور پر واوِ عطف شمار کر لیا گیا ہے‘ اور اسی لیے میں نے بھی ترجمہ ’’اور‘‘ کے ساتھ ہی کیا ہے (کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل) لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں مقامات پر پہلا اور تیسرا ’’و‘‘ واوِ عطف ہے اور درمیان میں دوسرا’’و‘‘ واوِ تفسیری ہے. گویا اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ’’ جبکہ میں نے تمہیں سکھائی /سکھائے گا اُس کو کتاب بھی اور حکمت بھی‘ یعنی تورات بھی اور انجیل بھی‘‘. اس لیے کہ تورات صرف ’’کتاب‘‘(بمعنی احکام) ہے اور انجیل صرف’’حکمت‘‘ ہے‘ جبکہ قرآن حکیم عناصر چہار گانہ کا حامل ہے: یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ (آل عمران:۱۶۴)
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اپنے آپ کو وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ قرار دیا ہے. یہ الفاظ سورۃ المائدۃ کی آیت۴۸ میں آئے ہیں:
وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ
’’(اے محمد ﷺ ) ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے‘ یہ کتاب میں سے جو کچھ پہلے نازل ہو چکا تھا اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے اور اس پر محافظ و نگران اور حاکم بھی ہے.‘‘
قرآن حکیم میں مُھَیْمِن کا لفظ صرف دو مرتبہ آیا ہے. ایک زیر نظر مقام پر قرآن کے لیے اور دوسرے سورۃ الحشر کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کے ذیل میں:
اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ (آیت ۲۳)
اور مُھَیْمِن کے لفظی معنی میں امین ہونا‘ غالب ہونا‘ محافظ ہونا‘ نگہبان ہونا اور حاکم ہونا کا مفہوم ہے. قرآن ان تمام کتابوں کا جامع بھی ہے‘ محافظ بھی ہے‘ نگران بھی ہے‘ حاکم بھی ہے. یہ قرآن کی شان ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ان سب اجزاء کو جمع کر دیا جو باقی تینوں کتابوں میں آئے تھے. جیسا کہ میں نے عرض کیا پچھلی کتابوں میں کتاب کا مصداق تورات اور حکمت کا مصداق انجیل ہے‘ جبکہ حمد کے ترانے زبور میں ہیں. اور یہ تینوں اجزاء اس آخری کتاب میں جمع ہو گئے ہیں.
وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ کے مصداق یہ تمام سابقہ کتب سماویہ کی نگران بھی ہے‘ امین بھی ہے‘ محافظ بھی ہے اور حاکم بھی ہے.