لہٰذا پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر انسانی شخصیت کاارتقاء ہونا ہے اور اس شخصیت کی تعمیر یعنی اس میں ودیعت شدہ potentialities کو بروئے کار لانا ہے تو یہ کام کس طرح ہو گا؟ یہاں اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کا وجود دو اجزائے ترکیبی پر مشتمل ہے جو باہم متضاد ہی نہیں‘ ایک دوسرے کے مخالف بھی ہیں.متضاد کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ دو چیزوں میں باہم تضاد پایاجاتا ہو‘ اور ضروری نہیں کہ ان میں مخالفت اور کشمکش بھی ہو رہی ہو. جبکہ مخالفت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے مابین رسہ کشی یا کھینچ تان کی کیفیت بھی ہے. انسانی شخصیت کے اندر دو متحارب اور باہم مخالف اور متضاد عناصر اس کا نفس حیوانی اور اس کی روحِ ملکوتی ہیں. لہٰذا کرنے کا کام یہ ہے کہ روحانی عنصر کی تقویت و تغذیہ کا سامان کیا جائے اور دوسری طرف حیوانی عنصر کی ’’تہذیب‘‘ و تزکیہ کا بندوبست کیا جائے. اس عمل اور جدوجہد کے دو رخ (aspects) ہوں گے. اس بات کو اس حدیث کے حوالے سے سمجھئے جس میں بتایا گیا ہے کہ رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی منادی ندا کرتا ہے : یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ اَقْبِلْ وَیَابَاغِیَ الشَّرِّ اَدْبِرْ! یعنی ’’اے خیر کے طالب آگے بڑھ کہ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اے شر کے طالب پیچھے ہٹ اور لوٹ جا!‘‘ہمارے اندر بھی ایک خیر کا عنصر ہے اسے تقویت دیجیے‘ اس کی تقویت و تغذیہ کا اہتمام کیجیے‘ یہ ایک رخ ہو گیا. دوسرا رخ جو شر کی طرف کھینچنے والا عنصر ہے اس کو دبایئے‘ اسے contain کیجیے‘ اس کی تہذیب کیجیے‘ اس کا تزکیہ کیجیے.

اس تہذیب و تزکیہ کا مقصد نفس کو فنا کر دینا نہیں ہے. ضبط نفس یعنی self-control اور تہذیب و تزکیہ نفس یعنی self-purification ‘ یعنی یہ دونوں چیزیں مطلوب ہیں. لیکن نفس کشی یا self-annihilation کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے. یہ چیز دراصل باہر سے آئی ہے. چنانچہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے انسانوں کی جو اقسام بیان کی ہیں وہ انہی دو عناصر کی بنیاد پر یں‘ یعنی قوتِ ملکوتی اور قوت بہیمی. سب سے بلنددرجے پر وہ لوگ ہیں جن کی ملکیت بھی بہت قوی اور بہیمیت بھی بہت قوی ہے.اس لیے کہ قوتِ کار اور قوتِ عمل دراصل بہیمیت ہی سے متعلق ہے. بہرحال نوٹ کیجیے کہ اسلام میں نفس کشی یا self-annihilation کا کوئی مقام نہیں ہے‘ البتہ ضبط نفس یعنی self-control کا حصول مطلوب ہے ‘جسے میں تہذیب نفس کہہ رہا ہوں‘ اور دوسری مطلوب شے ہے تزکیہ نفس یعنی self-purification ان دونوںکا ایک نتیجہ نکلتا ہے جس کے لیے میں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے یعنی ’’تحریرالروح‘‘ . میں یہاں ’’تحریر‘‘ کا لفظ اس کے بنیادی لغوی مفہوم یعنی حریت کے معنی میں استعمال کر رہا ہوں. تحریر الروح یعنی liberation of the soul or spirit یہ نکتہ ’’عظمت صوم‘‘ نامی کتابچے میں بیان ہو چکا ہے کہ نفس حیوانی کا غلبہ جتنا شدید ہو گا اسی قدر ہماری روح ان بیڑیوں میں مقید رہے گی‘ اور نفس حیوانی کا غلبہ جتنا کمزور پڑے گا اسی تناسب سے روح کو آزادی ملے گی. تہذیب وتزکیہ نفس کا نتیجہ تحریر الروح کی شکل میں ملتا ہے‘ یعنی روح درحقیقت نفس امارہ کے تسلط سے آزاد ہوتی ہے.