اس نئی اصطلاح ’’تحریر الروح‘‘ کے جو دو معانی میں نے بیان کیے ہیں‘ یعنی ایک آزاد کرنا اور دوسرے حرارت پہنچانا‘ تو اس عمل کا منطقی نتیجہ وہ ہے جسے حکیم فلاطینوس (Plotinus) نے نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے‘ یعنی ’’Flight of the alone to the Alone‘‘ درحقیقت ہماری روح بھی‘ بلاتشبیہ‘ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرح ‘ انتہائی تنہا ہے. روح کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں‘ روح کسی کی باپ ہے نہ کسی کا بیٹا‘ نہ کسی کا شوہر نہ کسی کی بیوی. اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جدید فلسفے میں بھی وجودیت کے حوالے سے ’’کرب‘‘ کا لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے. جو شخص بھی ذہنی اورنفسیاتی اعتبار سے بلند ہونا شرو ع ہوتا ہے اس میں تنہائی کا احساس بڑھنے لگتا ہے‘ گویا جتنا اس کے اندر تنہائی کا احساس شدید ہو گا اسی قدر وہ حیوانی سطح سے بلند ہوتا جائے گا.

چنانچہ ایک طرف انسانی روح کی یہ مطلق ’’انفرادیت‘‘ 
(indivuduality) ہے اور دوسری طرف وہ ذات ہے جو ’’الاَحد‘‘ ہے اور جس کی فرویت‘‘ میں کسی بھی نوع کی ثنویت کا سرے سے کوئی احتمال تک ہیں ہے!

اب اس قاعدہ کلیہ کے مطابق کہ ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اور اپنے مرکز اور 
source کی جانب رجوع کرتی ہے‘ روح انسانی کا اصل رجحان اللہ تعالیٰ کی جانب ہے. گویا روح کی مثال ایک پرندے کی سی ہے جو جسم اور حیوانیت کے پنجرے میں مقید ہے. یہ پرندہ پھڑپھڑاتا ہے اور قید سے آزاد ہو کر اُوپر اٹھنا چاہتا ہے . چنانچہ اسی کو حکیم فلاطینوس نے ’’تنہا‘‘ کی پرواز ’’تنہا‘‘ کی جانب سے تعبیر کیا ہے جس میں ہم احتیاطاً یہ اضافہ کر سکتے ہیں کہ:

’’محدود تنہا‘‘ کی پرواز ’’لامحدود تنہا‘‘ کی جانب! یہاں اقبال کے دو شعر ملاحظہ کیجیے:

مرا دل سوخت بر تنہائی اُو
کنم سمانا بزم آرائی اُو
مثالِ دانہ می کارم خودی ما
برائے او نگہ دارم خودی را

یعنی میرا دل جلتا ہے اس صدمے اور رنج سے کہ اللہ اکیلا ہے‘تنہا ہے. لہٰذا میں اس کی محفل سجانے کی کوشش کر رہا ہوں. جیسے دانے کو پروان چڑھایا جاتا ہے تو وہ 
پودا بنتا ہے‘ کسان اسے پالتا اور پوستا ہے اسی طرح میں اپنی خودی کی پرورش کر رہا ہوں اور اسے پال پوس رہا ہوں‘ اور اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی خودی یعنی اَنا یا روح کی حفاظت کر رہا ہوں.
بہرحال‘ ان فلسفیانہ اور شاعرانہ خیال آرائیوں سے قطع نظر‘ اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ روح کی تقویت کا سامان کرناہر انسان کے لیے لازم ہے‘ جس کا ذریعہ ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ ’’ذکر‘‘ ہے اور اس کی شرح کریں تو سب سے بڑا ذکر خود قرآن ہے‘ پھر نماز اور پھر ادعیہ و اذکارِ مسنونہ. اس سے تجلیہ روح کا مقصد حاصل ہو گا اور ایمان کی شدت اور گہرائی میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا‘ یہاں تک کہ انسان منزل’’احسان‘‘ پا لے گا.